یہ تجزیہ نہیں، بلکہ تناظر ہے۔ ایک سوال ہے جس کا تعلق فلسطین سے ہے، مگر گونج پوری مشرق وسطیٰ میں سنائی دیتی ہے۔ غزہ کے جلتے مکانوں، بیروت کی فضا میں گونجتے دھماکوں، یمن کے لہو سے بھیگے صحراؤں، اور عراق کی خاموش مزاحمت تک، ہر منظر میں ایک ہی دھاگہ نظر آتا ہے: مزاحمت۔
یہ سطور اس لیے لکھی جا رہی ہیں کہ ہم سمجھ سکیں، مزاحمت کو دبانے کے لیے کیا کیا جا رہا ہے، اور اس کے جواب میں یہ مزاحمت کتنی جاندار، کتنی لچکدار اور کتنی واضح شکل میں باقی ہے۔
غزہ کی مثال لیجیے۔ "فریڈم فلوٹیلا" نامی امدادی قافلہ، جو مظلوموں کے لیے اُمید کا پیغام تھا، اسے راستے میں روک دیا گیا۔ صیہونی قبضہ گروہ نے اسے غزہ کی بھوکی، زخمی آبادی تک پہنچنے سے روک دیا۔ یہ صرف ایک انسانی قافلہ نہیں تھا، یہ خود ایک علامت تھی—کہ مزاحمت کو صرف بارود سے نہیں، بھوک سے بھی کچلا جا رہا ہے۔
اور پھر بات آتی ہے ٹرمپ کے اُس منصوبے کی جس کے تحت غزہ کی جبری خالی کرائی جانے والی زمین کو "امن منصوبہ" کہا جا رہا ہے۔ لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے نکالنے کی یہ کوشش، درحقیقت اُن کے جذبۂ مزاحمت سے ٹکرا گئی۔ غزہ کے لوگ، خواہ وہ بچے ہوں یا بزرگ، ہتھیار نہیں ڈال رہے۔ وہ اپنے لہو سے دیوار لکھ رہے ہیں کہ ہم کہیں نہیں جائیں گے۔
اسی تناظر میں حماس اور جہادِ اسلامی کے مجاہدین کی کاروائیاں سامنے آتی ہیں۔ صرف گزشتہ چند دنوں میں صیہونی افواج کے آٹھ افراد ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ یہ واقعات غزہ کی مزاحمت کو ایک عملی جواب میں ڈھالتے ہیں۔ وہ حکمت عملی جو صرف زبان یا سفارت کاری تک محدود نہیں، بلکہ میدانِ عمل میں بھی واضح ہے۔
یہی حقیقت حزب اللہ کے معاملے میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ لبنان میں عید الاضحیٰ سے ایک دن قبل بیروت کے نواح میں اسرائیلی فضائی حملوں کا نشانہ ضاحیہ بنا۔ دعویٰ کیا گیا کہ وہاں ڈرون بنانے والے مراکز تباہ کیے گئے ہیں۔ لیکن عوام نے سوال اٹھا دیا: اگر حزب اللہ کو ختم کر دیا گیا ہے، تو پھر یہ حملے کیوں؟ جھوٹ ہمیشہ ایک لمحہ خاموش رہتا ہے، پھر خود بول اٹھتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انہی دنوں بلدیاتی انتخابات میں حزب اللہ کو واضح کامیابیاں ملیں۔ اسرائیلی بیانیہ بری طرح شکست کھا گیا۔ جو بتایا گیا وہ نہ صرف جھوٹ نکلا، بلکہ اُلٹا سوالوں کی بوچھاڑ لے آیا۔
ادھر یمن، جسے کئی سالوں سے بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، وہاں انصار اللہ نے امریکی جنگی بیڑے کو نشانہ بنا کر دنیا کو چونکا دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکا نے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا، صرف اس شرط پر کہ انصار اللہ امریکی بیڑوں کو نہ چھیڑے۔ لیکن انصار اللہ کا پیغام واضح تھا: غزہ کی حمایت جاری رہے گی، اور مزاحمت بھی۔
یمن کی طرف سے اسرائیل کے بن گوریون ایئرپورٹ پر بارہا حملے ہو چکے ہیں۔ اِن حملوں نے اسرائیلی فضائی سفر کو معطل کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ ایک جنگی کامیابی ہی نہیں، نفسیاتی فتح بھی ہے۔
اسی تصویر میں شام کو شامل کیجیے۔ شام، جو کئی سال سے خانہ جنگی کا شکار ہے، اب وہاں ایک نئی مزاحمتی تنظیم ابھر رہی ہے۔ اس کا نام شہید محمد ضیف کے نام پر رکھا گیا ہے، جو حماس کے ایک اہم کمانڈر تھے۔ تنظیم کا واضح اعلان ہے کہ وہ شام کی سرزمین پر اسرائیلی موجودگی کو قبول نہیں کرے گی۔
شام میں اسرائیل کی بمباری اور جولانی حکومت کی خاموشی، اس تنازع کو اور بھی پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورا شام ایک سیاسی شطرنج بن چکا ہے، جہاں ہر مہرہ کسی دوسرے کے ہاتھ میں ہے۔
عراق کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ یہاں امریکا نے کردستان میں تیل و گیس کے ذخائر پر قبضے کے لیے نئے سودے کیے ہیں، اور داخلی خلفشار کو ہوا دی جا رہی ہے۔ مگر مزاحمت نے یہاں بھی جواب دیا ہے۔ عراق کی حزب اللہ سیاسی میدان میں داخل ہو چکی ہے، اور عدنان الزرفی کو وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر سامنے لا چکی ہے۔
تو ان سب واقعات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟
یہ کہ مزاحمت تصور نہیں، ایک عمل ہے۔ وہ شام میں نئی شکل میں جنم لیتی ہے، یمن میں بارود بن کر گرتی ہے، لبنان میں عوامی مینڈیٹ بنتی ہے، عراق میں سیاسی شعور میں ڈھلتی ہے، اور غزہ میں مٹنے سے انکار کرتی ہے۔
امریکی حکمت عملی، جس کا ہدف حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا اور شام کی حکومت کو لبنان پر غلبہ دلوانا ہے، بظاہر خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ حزب اللہ کی میزائل طاقت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اسرائیل کو دوبارہ خوف لاحق ہے۔
یمن اور عراق میں مزاحمت کی تازہ کامیابیاں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو دفاعی پوزیشن پر لے آئی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن، تل ابیب اور ریاض کی سہ فریقی دوستی کے باوجود مزاحمت کا راستہ نہ روکا جا سکا۔
غزہ، بیروت، صنعاء، دمشق اور بغداد—سب ایک ہی داستان کے مختلف ابواب ہیں۔ ہر جگہ ایک ہی سوال گونج رہا ہے:
کیا طاقت ہی حق ہے؟
یا پھر اصول، خودداری اور قربانی اب بھی زندہ تصورات ہیں؟
اور اگر زندہ ہیں، تو دنیا کو ایک بار پھر ماننا پڑے گا کہ بندوق کے سامنے ہمیشہ جھکنا ضروری نہیں ہوتا۔