خدا تعالی نے اپنے ایک نرم خو اور ملنسار بندے کو اپنے پاس بلا لیا۔ایسی حالت میں کہ جمعے کا دن تھا اور رمضان کا مبارک مہینہ، آپ اپنے پیاروں کے جھرمٹ میں اپنے گھر میں موجود تھے۔ طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں میں آپ ایک مثالی اور متحرک انسا ن تھے۔ ایک تقریب میں پروفیسر سراج الدین کا تعارف کرتے ہوئے پروفیسر ناصر نے کہا تھا کہ ان میں وہ تمام خوبیاں ہیں جو مجھ میں ہیں، اور بہت سی ایسی بھی ہیں جو میرے پاس نہیں ہیں۔ان باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک شریف اور غیر معمولی انسان تھے۔۔ ان کے سیدھے سادے، متوازن، اور حقیقت پسندانہ اندازِ فکر نے طب کی دنیا میں انہیں ایک ممتاز مقام دیا۔ پروفیسر سراج الدین 13اگست 1935کو ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک معتبر اور قابل استاد تھے۔ انہوں نے اپنی قابلیت کے جینز اپنے بھائی اور قانون کی دنیا میں ایک معتبر نام بیرسٹر ظہور الحق کے ساتھ شیئر کیے تھے۔ انہوں نے 1958 میں کنگ ایڈورڈز میڈیکل کالج لاہور سے امتیازی پوزیشن کے ساتھ گریجویشن کی۔ وہ نیو جرسی میں ریزیڈنسی میں شمولیت کیلئے امریکہ چلے گئے بعد میں طب کی مزید تربیت کے لیے برطانیہ چلے گئے۔ وہاں انہوں نے ممبرشپ اور بعدازاں رائل کالجز آف فزیشن گلاسگو اور ایڈنبرا کی فیلوشپ حاصل کی۔پاکستان واپسی پر انہوں نے خیبر میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور میڈیسن کے پروفیسر بن گئے اور بعد میں کالج کے پرنسپل اور ڈین بن گئے۔میڈیکل فیکلٹی پشاور یونیورسٹی نے پروفیسر سراج کا طبی برادری میں تازہ ہوا کے جھونکے کے طور پر استقبال کیا۔اس زمانے میں زیادہ تر اساتذہ روایتی طور پرسخت نظر آتے۔ دوسری طرف پروفیسر سراج الدین کا انداز دوستانہ، مشفقانہ اور بے تکلف تھا۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی اور آخرتک یہ مسکراہٹ ان کی پہچان رہی۔پروفیسر سراج الدین کو میڈیکل کی تعلیم کا جنون تھا۔ انہوں نے کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی اور طب کے نصاب میں نئے آئیڈیاز لانے کی کوشش کی۔ انہوں نے خیبر میڈیکل کالج میں بطور پرنسپل تدریس اور تشخیص کے طریقوں میں تبدیلیاں متعارف کروائیں۔ انہوں نے طبی تعلیم پر ایک کتاب کوالٹی ایجوکیشن کے نام سے تصنیف کی اور پھر دوسرے ایڈیشن کے ساتھ اس پر نظر ثانی کی۔ وہ خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں منعقدہ 'میڈیکل ایجوکیشن' کانفرنسوں کے مستقل مہمان خصوصی تھے،ان کے خیالات اور طریقہ کار سے استفادہ کرنے کیلئے ہم ان کی کتابیں ایم ایچ پی ای کے تمام گریجویٹس میں تقسیم کریں گے۔ان کے ساتھ میری وابستگی 1975 سے تھی جب میں ایم بی بی ایس کے دوسرے سال کے طالب علم کے طور پر تربیت کے لیے ان کے کلینک میں داخل ہوا اور انہوں نے مجھے دل کی ساری تہیں کھول کر اپنی شاگردی میں قبول کیا۔ ایک پرجوش اُستاد ہونے کے ناطے انہوں نے اپنی حکمت کے موتی بانٹنا شروع کر دئیے۔ انہوں نے مجھے سکھایا کہ کس طرح ایک مریض کا طبی جائزہ لینا ہے صرف جسمانی بیماری پر توجہ مرکوز نہیں کرنا بلکہ مریض کو اندر سے کریدنا اور ذہنی پریشانیوں کو تلاش کرناہے۔ ان سے میری رفاقت مختلف رنگوں میں مزید پروان چڑھی۔ میں ان کا پرجوش مداح رہا اور وہ بلاشبہ ایک شفیق اور فیاض استاد، مشیر اور ساتھی تھے۔پروفیسر سراج ہمدردی اور خلوص کی علامت تھے۔ ان کی شخصیت کا ایک بہترین پہلو ان کا انتہائی ضبط نفس اور صبر تھا۔ یہ صفات ان کی فطرت میں شامل تھیں یا انہوں نے اپنی محنت اور تربیت سے حاصل کی تھی یہ صرف وہی جانتے ہیں لیکن میں نے انہیں کبھی پریشان اورغصے میں نہیں دیکھا۔اکثر مریض ان سے مشاورت کو ترجیح دیتے تھے کیونکہ اس میں ان کی دکھ کی کہانیاں سننے کاحوصلہ تھا۔ کلاس میں انہیں بے ہودہ سوال
یا احمقانہ جواب سے اکسایا نہیں جا سکتا تھا۔ وہ سب سے پسندیدہ جواب دینے والے تھے کیونکہ وہ کبھی بھی جھوٹی چمک نہیں دکھاتے تھے یا امیدواروں کو پریشان نہیں کرتے تھے‘ 21 فروری 2010 کو ڈان میں شیر عالم شنواری سے گفتگو کرتے ہوئے انسانی عنصر کے انجکشن کے عنوان سے ایک مضمون میں پروفیسر سراج الدین نے کہاکہ ہم علاج کرنے والوں کی جو ٹیم تیار کرتے ہیں ان میں انسانی عنصر کی کمی ہے۔ مریض کی جذباتی صحت تو دور کی بات ہے۔ دنیا کے اس حصے میں طبی پیشے سے وابستہ احترام اور تقدس کا عنصر تقریبا ًختم ہو گیا ہے، انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کو یہ باور کرانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ بیماروں کا خیال کیسے رکھیں۔ میڈیکل کے طلبا کو نہ صرف یہ جاننا چاہئے کہ علاج کیسے کرنا ہے، بلکہ انہیں مریض کا دل جیتنے کے قابل بھی ہونا چاہئے۔ان کے اس تصور کو عملی
جامہ پہنانے کے لئے ملک کے تمام میڈیکل کالجوں میں میڈیکل ٹیچرز کے تربیتی سیمینارز، ورکشاپس اور سمپوزیم کا ایک سلسلہ شروع کرکے اس خیال کو حقیقت میں بدل دیا گیا۔ تاثرات کافی حوصلہ افزا تھے حالانکہ ہمیں ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہمارے نظام میں تعلیم کی سب سے بڑی بے ضابطگی یہ ہے کہ اس سے ایسے گریجویٹس پیدا ہوتے ہیں جو معاشرے پربوجھ بن جاتے ہیں۔ ایک بردبار معاشرہ تبھی اُبھر سکتا ہے جب اظہار رائے کی آزادی کا احترام ہو۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ہماری تعلیم باہم مربوط، مارکیٹ کی ضروریات پر مبنی ہونی چاہئے جو تمام طبقات کے لئے قابل قبول ہو۔جو قومی یکجہتی کو فروغ دے اور ریاست کومعاشی طور پربااختیار بنانے کی آزادی کا باعث بنے۔پروفیسر سراج کو اللہ تعالی نے طالع مند اور فرمانبردار اولاد سے نوازا۔انہوں نے اپنے پیچھے چار بچے سوگوار چھوڑے جو اعلی تعلیم کے زیور سے آراستہ اور اہم عہدوں پرتعینات ہیں۔وہ شکاگو میں صحت خاص طور پر ہسپتال سے فارغ ہوکر گھر جانے والے مریضوں کے لیے اعلی معیار کی پوسٹ ایکیوٹ نگہداشت کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ ان کی بیٹی زرمینہ اور داماد اویس ماہر امراض قلب ہیں ان کے تین بیٹے انڈیاناپولیس میں خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ بھی انتہائی فرمانبردار، ملنسار اور خلوص و محبت کی دولت سے مالامال ہیں۔ایک سال پہلے ان کے خاندان کواس وقت شدید دھچکا لگا جب انتہائی ملنسار اور دیکھ بھال کرنے والی والدہ مسز راحت سراج اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ وہ خاندان کی مرکزی کردار کی حیثیت سے پورے خاندان کو جوڑ کر رکھتی تھیں اور ان کا اپنا حلقہ احباب اور عقیدت مندو مداح تھے۔ انہوں نے اپنے آخری چند سال پروفیسر سراج کی دیکھ بھال کے لئے وقف کیے اور ان کے انتقال کے بعد ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوا۔تاہم اچھی تربیت کے حامل تمام بچوں نے ان کی بہترین دیکھ بھال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انہوں نے والدین کی بہت اچھی طرح دیکھ بھال کی‘دوسروں کیلئے ایک نئی مثال قائم کی۔اللہ تعالی والدین اور اولاد میں برکت دے۔ ایمل سراج ایک ممتاز تحقیقی سائنسدان ہیں۔سٹیلائیٹ ان کی تحقیق کا مرکز ہے جس کی بنیادی توجہ اس لائیو سیٹلائٹ کی ٹیکنالوجی پر ہے۔ یہ سیٹلائٹ زمین کو مطلوبہ کوریج فراہم کرتے ہیں۔ فی الحال وہ جاپان میں 1997 میں قائم ہونے والی وائڈ آئی این سی ٹیکنالوجی کے صدر اور بانی ہیں۔یاسر سراج آغا خان یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور ایک ماہربین الاقوامی کارڈیالوجسٹ ہیں‘اعلی درجے کے پیچیدہ کورونری طریقہ کار میں تربیت یافتہ ہیں۔ انہوں نے چند سال اسلام آباد میں کام کیا اور اپنے شعبے میں نام کمایا۔ وہ فی الوقت راک فورڈمیں یو ڈبلیو ہیلتھ ناردرن الینوائے میڈیکل گروپ میں خدمات انجام دے رہے ہیں‘ سب سے چھوٹے عمیر سراج کا برطانیہ اور امریکہ میں شاندار تعلیمی کیرئیر تھا۔ انہوں نے پاکستان میں انسانی وسائل کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ چیف ایگزیکٹو آفیسر اور شکاگو میں چیسٹ نٹ ہیلتھ کے بانی ہیں جو اعلی طبی خدمات فراہم کررہے ہیں۔