کیمپس کے باہمی جھگڑے

یہ ایک قدرتی امر ہے کہ جب وسائل کی کمی واقع ہو تو ہر کسی کو یہ فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ  یہ جو کچھ موجود ہے اس میں ان کا حصہ کتنا ہوگا؟ یہی کچھ ایک عرصہ سے یونیورسٹی کیمپس میں بھی ہو رہا ہے اسلامیہ کالج کا دعویٰ ہے کہ پشاور یونیورسٹی کی ساری زمین ان کی ملکیت ہے جبکہ ایسا ہی دعویٰ پشاور یونیورسٹی کا زرعی اور انجینئرنگ یونیورسٹی سمیت پورے کیمپس کے بارے میں  بار بار دھرایا جاتا ہے دراصل ایسا دعویٰ تو سب سے پہلے اسلامیہ کالجیٹ کا حق بنتا ہے کیونکہ کیمپس کے تمام تر تعلیمی ادارے بشمول جامعہ پشاور کالجیٹ کے بطن سے پیدا ہوئے ہیں مگر کالجیٹ بے چارے کو تو سال2008ء میں اسلامیہ کالج کو یونیورسٹی بنانے کے بعد کچھ اس قدر اپاہج بنادیاگیا ہے کہ درسگاہ کے ماضی کی بس یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں‘ زمین پر جھگڑا محض یہاں تک محدود نہیں بلکہ عرصہ ہوا کہ ساری دنیا زمین کی ملکیت اور اپنے قبضے اور اقتدار کے خول اور وسعت دینے کے لئے آپس میں دست و گریبان ہے‘ اسلامیہ کالج کی طرف سے جامعہ پشاور اور جامعہ کی جانب سے انجینئرنگ اور زرعی یونیورسٹی کو بے دخلی کے نوٹسوں کا سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے اس دوران کئی مرتبہ چانسلر سے بھی ثالثی کیلئے رجوع کیا گیا مگر تنازعہ تاحال جوں کا توں ہے‘ درحقیقت کسی یونیورسٹی کے لئے رقبے حدود‘ سہولیات جبکہ تعلیمی اور تربیتی سہولیات کے جولوازمات اور شرائط مسلمہ ہیں ان کے مطابق تو پورا کیمپس ایک ہی جامعہ ہونا چاہئے تھا لیکن شاید کسی نے یہ سوچا ہوگا کہ جب ایک ہی بلڈنگ میں یونیورسٹی چلائی جاتی ہے تو پھر اتنے وسیع و عریض کیمپس میں چار پانچ درسگاہوں کے قیام میں کیا قباحت ہے؟ ملکیت کے اس قضیئے کے درمیان ابھی کچھ عرصہ قبل تو بعض یونیورسٹیوں کے حدود اربعہ کو کاٹ کر بیچنے کا نظریہ بھی سامنے آیا تھا مگر بعض حلقوں اور خود جامعات کی مزاحتمی آوازوں کے بعد معاملہ وقتی طور پر رفع دفع ہوگیا مگر خدشہ برقرار ہے۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ پشاور یونیورسٹی کے ہوتے ہوئے اسلامیہ کالج کو ایک جنرل یونیورسٹی کا درجہ دینے کی ضرورت ہی آخر کیا تھی؟ ہر چند کہ اپنے حصہ کو بڑھانے اور اپنی بقاء کو دوام بخشنے کا یہ قضیہ تاحال جوں کا توں ہے لیکن جس فکر اور منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے وہ مسلسل نظرانداز ہو رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ ارے بھئی اپنے ذرائع آمدن بڑھائیں اور اپنے اخراجات میں ممکنہ حد تک کمی لائیں جہاں تک ذرائع آمدن میں اضافے کا سوال ہے تو معاملہ فہم لوگوں کے نزدیک اسلامیہ کالج اور پشاور یونیورسٹی کی زرعی اور کمرشل جائیدادکو اگر ریاستی اداروں کے تعاون سے واگزار کرکے ان دونوں درسگاہوں کی تحویل میں دی جائیں اور وہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق استعمال ہوں تو اسلامیہ کالج اور جامعہ پشاور کو حکومتی گرانٹ کی ضرورت ہی نہیں رہے گی مگر کیا کہیں کہ اس جانب ریاستی اداروں کا دھیان دیکھنے میں آتا ہے اور نہ ہی خود ان درسگاہوں نے کبھی اس جانب قدم بڑھایا ہے‘یہی وجہ ہے کہ اسلامیہ کالج اور پشاور یونیورسٹی سے کبھی ایک سرکاری ادارے کو زمین کا ٹکڑا ہتھیانے کی ضرورت پیش آتی ہے اور کبھی دوسرے کو‘اور اب تو خیر سے بی آر ٹی کے سٹیشن کو بھی جامعہ کے اندر لے جانے کی تیاری ہو رہی ہے‘اب تو نہ صرف سوچنے بلکہ کچھ کرنے کا وقت آپہنچا ہے ورنہ ایک ایسے عالم میں تو یونیورسٹی چلانا ناممکن ہو جائے گا کہ جامعہ پشاور کی جمرود روڈ سے متصل گرین بیلٹ جو کہ عرصہ سے ہیروئنچیوں کے اڈے کے طورپر استعمال ہو رہی ہے بی آر ٹی کی نذر ہوگی‘ اسی طرح اخراجات کمی کی جو اشد ضرورت ہے اس کی سوچ و فکر دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے ورنہ کیمپس کے اندر رہائش پذیر ہوتے ہوئے درجنوں گاڑیوں کا استعمال تو لازمی طور پر ترک کیا جاتا‘ اس وقت تو یہ خدشہ  بھی لاحق ہے کہ پشاور یونیورسٹی سمیت پرانی جامعات کے ملازمین گزشتہ دو سال سے صوبائی حکومت سے اپنی جامعات کے لئے کم از کم50ارب روپے بجٹ کا جو مطالبہ کر رہے ہیں اگر پذیرائی نہ ملی تو پشاور یونیورسٹی کیسے چلے گی؟ اس بابت کوئی بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔