یونیورسٹی اساتذہ کی بھرتی‘ تقرری اور ترقی کیلئے اہلیت کی شرائط یونیورسٹی سٹیچیوٹس یاقواعد و ضوابط میں بالکل واضح ہیں جو یونیورسٹی ایکٹ یا قانون صوبائی اسمبلی سے منظور ہو کر آتا ہے جہاں پر حکومت اور اپوزیشن دونوں کے اراکین شامل ہوتے ہیں‘اسی ایکٹ کے تحت جامعات کو خود مختار ادارے تسلیم کیا گیا ہے جہاں تک ہمارا مشاہدہ ہے تو قدیم درسگاہ گزشتہ دو عشروں سے زائد عرصہ سے نت نئے تجربات اور ہر طرح کی بحرانی کیفیت سے دوچار آرہی ہے اس میں مالی ابتری سب سے زیادہ گھمبیر نظر آرہی ہے جس کے سبب یونیورسٹی ہر طرح سے متاثر ہوگئی ہے‘ تدریسی‘ انتظامی اور دفتری امور سے لیکر تحقیق اور نادار طلباء کی مالی امداد سمیت پورا ڈھانچہ متاثر ہوا ہے‘ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ مختلف وجوہات کی بناء پر جب کچھ لوگوں نے دلبرداشتہ ہو کر اساتذہ کے ایک نئے پلیٹ فارم کو انٹولیکچول فورم کے نام سے متعارف کروالیا تو فرینڈز گروپ جسے عرف عام میں ملگری استاذان بھی کہا جاتا ہے کی روایتی حریف تنظیم اساتذہ منظر سے قدرے غائب ہوگئی اور یوں مختلف نظریات اور وابستگیوں کے حامل اساتذہ پر مشتمل انٹولیکچول فورم نے اپنے قیام سے پہلی بار پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کا الیکشن جیت کر شعبہ انگلش کے ہر دلعزیز عارف خان صدر جبکہ جیالوجی کے معاملہ فہم محمد سلیمان خان جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے محمد سلیمان اس کے بعد فرینڈز کیساتھ بھی اپوزیشن میں رہتے ہوئے جنرل سیکرٹری رہے جبکہ سنڈیکیٹ سمیت ہرباڈی کے الیکشن میں اپنی ہردلعزیز شخصیت اور میانہ روی کے سبب کامیاب رہے‘انٹولیکچول فورم کے اقتدار میں آج سے آٹھ سال قبل جامعہ کی فیکلٹی میں خالی آسامیوں کو مشتہر کیا گیا جسے طریقہ کار کے تحت فیکلٹی کی ترقی کے ذریعے پر کیاگیا مگر اسکے بعد اندھیرا چھاگیا‘اساتذہ جن میں 80سے زائد خواتین پی ایچ ڈی بھی شامل ہیں گزشتہ آٹھ سال سے ترقیوں سے بلاوجہ محروم رہے پیوٹا کی اجتماعی اور متاثرین کی انفرادی کوششیں جاری رہیں مگر ایکٹ میں ترامیم کے نام پر نت نئے تجربات رکاوٹ بنے رہے بالآخر 9فروری 2025ء کو جامعہ کے نئے چانسلر اور صوبے کے انتظامی سربراہ نے پشاور یونیورسٹی کے دورے میں اساتذہ کی رکی ہوئی ترقی کے مسئلے کے حل کا اعلان کرتے ہوئے وائس چانسلر کو اجازت دیدی کہ ترقیوں کے مسئلے کو مروجہ طریقہ کار کے مطابق حل کیا جائے مگر شومئی قسمت کہ اس کے باوجود بھی صوبائی محکمہ اعلیٰ تعلیم رکاوٹ بنا رہا یہاں تک کہ یونیورسٹی کو تحریری طور پر سرخ جھنڈی لہرائی گئی مگر تھکے ماندے اساتذہ نے بھی مایوسی کی چادر اوڑھنے کی بجائے اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر قواعد و ضوابط کے تحت ترقیوں کو ایک ہفتہ میں مشتہر نہ کیا گیا تو پھر کلاس روم بند اور اساتذہ سڑکوں پر ہوں گے اب یہ معلوم نہیں کہ محکمہ اعلیٰ تعلیم نے چانسلر کے اعلان پر عملدرآمد کرتے ہوئے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کردی یا یونیورسٹی انتظامیہ نے جامعہ کو بندش سے بچانے کی خاطر رسک لیتے ہوئے ترقیوں کا اشتہار جاری کردیا؟ بہرکیف جس طرح بھی ہو مگر دیرآید درست آید کے مصداق اساتذہ کو اپنے قانونی حق کاملنا اور جامعہ کابندش سے بچنا ایک حوصلہ افزاء واقعہ مانا جائیگا ان سطور میں یہ حقیقت اس سے قبل بھی واضح کی گئی ہے کہ یونیورسٹی ملازمین کی بھرتی تقرری اور ترقی کے اپنے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں جو کہ ایکٹ کے تحت یونیورسٹی کی قانونی باڈیز سے منظور شدہ ہوا کرتے ہیں اس میں ایٹا ٹیسٹ اور نہ ہی کوئی دوسرا ٹیسٹ بلکہ ترقی کیلئے سنیارٹی‘ ہارڈ ورک اور پی ایچ ڈی ہولڈر ہونا اہلیت کی لازمی شرائط ہوتی ہیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
تعلیم کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
فروغ تعلیم‘ ترجیحات پر نظرثانی کی ضرورت
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
کے پی جامعات‘ روکھی سوکھی کا دور
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مشتری ہوشیار باش
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
جامعات کو تجربہ گاہ بنانے سے بچانا ہوگا
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے