تعلیمی بجٹ‘ ضروریات اور خدشات

ایک ایسے وقت میں جبکہ قدیم درسگاہ کے اساتذہ کا اپنے قانونی حق(ترقی) سے محرومی کے سبب مایوسی کے عالم میں یونیورسٹی کو خیر باد کہنے کا سلسلہ جاری ہے بجٹ سازی اور اس پر تبصروں کابازار بھی گرم ہے‘جامعات سے منسلک بعض لوگ خدشات میں لپٹی یہ توقع بھی کر رہے ہیں کہ شاید اس مرتبہ تعلیمی بجٹ میں قدرے اضافہ کیا جائے مگر حالات و واقعات اس کے برعکس نظر آرہے ہیں تعلیم کیلئے موجودہ غالباً1.5 فیصد بجٹ میں اگر تھوڑا سا اضافہ بھی ہو جائے تو کم از کم خیبرپختونخوا کی پرانی جامعات کا مستقبل مکمل طور پر تاریک ہونے سے بچ جائے گا دراصل دنیا کا سارا نظام کچھ لو کچھ دو پر چل رہا ہے جسے لین دین بھی کہا جاسکتا ہے مگر شومئی قسمت کہ تعلیم کے معاملے میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ ایک مخلصانہ رائے یہ بھی ہے کہ ابھی سال رواں میں ان خواص کیلئے جس کی تنخواہ بنتی ہے اور نہ ہی ضرورت مند ہیں‘یکے بعد دیگرے160 فیصد 188فیصد اور140فیصد کا جو اضافہ کیا گیا ہے اگر اسے قومی خدمت کے جذبے کے تحت رضا کارانہ طورپر تعلیم کو دیا جائے تو تعلیمی ابتری میں کافی حد تک سدھار آسکتاہے‘کاش کہ یہ جذبہ بیدار ہو۔ جامعہ پشاور کے تعلیمی جرگے میں تعلیم کے حوالے سے جو بنیادی نکات اور سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے ہیں ان کا مثبت جواب دیئے بغیر تعلیم کا مستقبل یقینا تاریک ہی ہوگا‘جامعات کا نظام تین قسم کے کیڈر سے تعلق رکھنے والے ملازمین کی بدولت چلتاہے یعنی انتظامیہ‘ ٹیچنگ کیڈر یا سٹاف اور ان دونوں کا معاون عملہ یا سپورٹنگ یعنی کلریکل سٹاف‘ بلاشبہ کہ تنخواہ میں ہر سال قدرے اضافہ کیا جاتاہے مگر اس کی ادائیگی کیلئے یونیورسٹی کو اضافی گرانٹ کی شکل میں کچھ بھی نہیں ملتا جبکہ پنشن کا معاملہ تو حد درجہ گھمبیر بھی ہوگیا ہے‘اس میں جامعہ پشاور کی حالت تو اس لئے بھی دیدنی ہوگئی ہے کہ آنیوالے بجٹ میں ہونیوالے اضافے سے قبل جامعہ کی پنشن کا بجٹ14 کروڑ44 لاکھ روپے تک پہنچ گیا ہے‘ پنشنرز کے ایک حالیہ اجلاس میں اس بات کو ناانصافی قرار دیا گیا ہے کہ یونیورسٹی تنخواہیں تو دیتی ہے مگر پنشنرز کو محروم رکھا جاتا ہے لہٰذا ادائیگیوں میں توازن قائم کیا جائے ہر چند کہ حاضر سروس ملازمین اس شکوے کی تائید نہیں کر رہے مگر ریٹائرڈ ملازمین کی شکایت بجا اور مطالبہ درست اوراصولی ہے‘ ایسے میں جامعہ پشاور کی انتظامیہ فیکلٹی کے تعاون سے مستقبل کیلئے سٹریٹجک پلان کی تیاری کر رہی ہے جو کہ مستقبل قریب میں سامنے آئیگا مگر عملدرآمد کیلئے جو مالی وسائل درکار ہونگے وہ کہاں سے آئینگے؟ اگر منصوبے پر عملدرآمد میں کچھ لو کچھ دو کو ایک طرف رکھ کر محض لینے کو ترجیح دی جائے تو ایسے پلان کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے آنا یقینا محال ہوگا لینے کی حالت تو یہ ہے کہ جامعہ کے ڈین جو کہ فیکلٹی میں سینئر پروفیسر ہوتا ہے مطلب ٹیچنگ کیڈر سے تعلق رکھتے ہیں سرکار نے اس کو بھی ایڈمن کیڈر میں ڈال کر ان کی تنخواہ سے انتظامی افسر کے برابر ٹیکس کٹوتی کی جارہی ہے اس لئے تو خدشہ ہے کہ جلد یا بدیر ڈین شپ کیلئے حکومت کی طرف سے جو پروفیسر نامزد ہو ممکن ہے کہ وہ ذمہ داری سنبھالنے سے معذرت کرینگے اب بھی ایک نہایت تلخ حقیقت کے طورپر یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ خیبرپختونخوا ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں پر اعلیٰ تعلیم یعنی یونیورسٹیوں کا بجٹ نہیں ہوتا اگر یہ بات درست ہو تو اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے‘جامعات کے سٹیک ہولڈر نے گزشتہ کی طرح ایک بار پھر اس مطالبے کو دھرایا ہے کہ صوبے کی تقریباً تین درجن سرکاری جامعات کیلئے کم از کم50 ارب روپے سالانہ بجٹ مختص کیا جائے مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے حصے میں کتنا بجٹ آتا ہے؟ اب بھی وقت ہے کہ یونیورسٹیوں کا یہ مطالبہ سنجیدہ لیا جائے بصورت دیگر اعلیٰ تعلیم کے مستقبل بارے کوئی توقع رکھنا محض خوش فہمی ہوگی۔