کوئی تین ہفتے قبل فروری کی دسویں شام ایک نجی ہوٹل میں انقلاب ِ ایران کے 46 ویں قومی دن کی مناسبت سے ایرانی قونصلیٹ جنرل پشاور کی جانب سے منعقدہ ایک تقریب میں صوبہ خیبر پختونخوا کے بہت اہم سیاسی،سماجی، مذہبی،علمی اور ادبی زعماء یکجا تھے عشائیہ سے قبل دوست ِ عزیز خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف اور سپیکر صوبائی اسمبلی خیبر پختونخوا بابر سلیم سواتی نے ایرانی بھائیوں کو عظیم فتح پر مبارکباد پیش کی اور ا یران کے قونصل جنرل علی بنفشہ خوا کے کلمات تشکر کے بعد یہ مختصر سی تقریب ختم ہوئی اور جیسا کہ ایسی تقریبات میں ہوتا ہے مہمان ٹولیوں میں بٹ کر ایک دوسرے سے میل ملاقات میں مصروف ہو گئے بہت سے احباب سے میری بھی بہت دنوں کے بعد ملاقات ہوئی تھی خاصی گہما گہمی تھی انتظامیہ کی جانب سے بار بار اصرار کے بعد جب عشائیہ کی طرف بڑھے تو مجھے اچانک عقب سے آنے والی محبت بھری ایک جانی پہچانی آواز نے روک لیا ”باچا صیب السلام علیکم“ مڑ کر دیکھا تو بہت ہی محبتی مولانا حامد الحق تھے جمعیت علمائے اسلام (س) گروپ کے سربراہ اور میری مادر علمی دار العلوم حقانیہ کے نائب مہتم ہونے کے ساتھ ساتھ میرے استاد محترم مولانا سمیع الحق شہید کے برخوردار حامد الحق سے بیشتر ملاقاتیں اس طرح کی تقریبات میں ہوتی تھیں، اور اپنے شہید والد کی طرح وہ بھی ہمیشہ اکوڑہ خٹک کی تہذیب کے مطابق ”باچا صیب“ کہہ کر ہی مخاطب ہوتے (اکوڑہ خٹک کے باسی اہل ِسادات کو اسی طرح مخاطب کرتے ہیں،)بہت ہی مختصر سی ملاقات تھی حال احوال کے تبادلہ کے دوران انہوں نے کہا کہ آپ گاؤں آتے ہیں اور ملے بغیر چلے جاتے ہیں میں نے کہا جلد ہی ان شاء اللہ حاضر ہوں گا مجھے یاد آیا کہ کوئی سترہ سال قبل لوگوں کی ایسی ہی کثیر تعداد ایچ ایٹ اسلام آباد کے قبرستان کی جنازہ گاہ میں اپنے محبوب شاعر احمد فراؔز کی نماز ِ جنازہ کے لئے موجود تھی بہت بھیڑ تھی سب بے حال تھے اور ان کا چہرہ دیکھنا چاہتے تھے میں سجاد بابر مرحوم اور عزیز اعجاز بھی ان کے جسد خاکی کے پاس خاموش کھڑے تھے کہ اچانک مجھے ”باچا صیب“ کی آواز آئی تھی یہ آواز استاد محترم سمیع الحق شہیدکی آواز تھی، انہوں نے مجھے حکم دیا کہ ادھر آ ئیں اور مائیک میں اناؤنس کریں کہ لوگ نماز جنازہ کے لئے صفیں سیدھی کریں میں نے پوچھا کہ نماز آپ پڑھائیں گے انہوں نے اثبات میں سر ہلایا تو میں نے مائیک میں لوگوں کو پرسکون رہنے اور صفیں سیدھی کرنے کو کہا اور یہ بھی کہا احمد فراز مرحوم کی نماز جنازہ استاد محترم مولانا سمیع الحق پڑھائیں گے ان کے مہربان چہرہ پر دھیمی سی
مسکان ابھر آئی تھی واپس آیا توسجاد بابر مرحوم نے عزیز اعجاز سے کہا کہ ”ایک تو یہ مائیک ہر جگہ ناصر علی سیّد کو ڈھونڈ لیتا ہے“ شہید مولانا سمیع الحق کا ادبی ذوق بہت عمدہ تھا، جن دنوں میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں پڑھتا تھا تو ماہنامہ الحق باقاعدہ سے ہمیں ملتا تھا، اس ماہنامہ کے مدیر بھی استاد محترم ہی تھے اور میں ان کے لکھے ہوئے اداریہ کی بہت خوبصورت اورمرصع نثر سے بہت متاثر تھا گورنمنٹ ہائی سکول جانے سے پہلے میری ابتدائی تعلیم بھی مدرسہ تعلیم القرآن ہی کی ہے جو استاد محترم کے والد گرامی اور برصغیر پاک و ہند کے قابل احترام اورجید عالم دین شیخ الحدیث مولانا عبدالحق کی مسجد کے زیر انتظام قریب ہی واقع تھامیں مسجد بھی جاتا اور اپنے چچا زاد بھائی سید عطاء اللہ شاہ کے ساتھ ان کے گھر بھی پڑھنے جایا کرتا، چونکہ میرے چچا الحاج سید نور بادشاہ شیخ الحدیث علیہ رحمتہ کے قریب ترین تین ساتھیوں میں سے ایک ساتھی تھے جنہوں نے اکوڑہ خٹک میں اس عظیم درسگاہ دارالعلوم حقانیہ کی بنیاد رکھی تھی وہ آج بھی اس علمی مرکز کے احاطہ میں آسودہئ خاک ہیں‘سو بچپن سے اس خانوادہ کے ساتھ قلبی و ذہنی کئی رشتے استوار ہیں گزشتہ جمعہ کو میں نماز کے بعد میں گھر میں تھا کیونکہ اس بار مجھے رمضان المبارک کے پہلے ہی روزہ کی شب کو طویل سفر درپیش تھا اس لئے کچھ ادھورے کام سمیٹ رہا تھا گاؤں سے ذی شان نے بھی آنا تھا انہیں بھی دیر ہو گئی تھی اتنے میں الخدمت فاؤنڈیشن کے آغوش مرکز سے بہت ہی محبتی اور ادب دوست ظہور محمد کی کال موصول ہوئی اور انہوں نے دارالعلوم حقانیہ کے اندوہناک واقعہ پر دکھ کا اظہار کیا تو میں نے پوچھا کیا ہوا؟ ان سے پھر کیا بات ہوئی یاد نہیں،ٹی وی سے دور تھالیپ ٹاپ پر ہی نیوز چینل ٹیون کئے اور تشویشناک خبریں دل چیرنے لگیں،پھر یکے بعد دیگرے احباب کے فون آنے لگے کیونکہ بہت سے دوست جانتے ہیں کہ میرے گھر کادروازہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی مشرقی دیوار میں واقع چھوٹے دروازے کے بالکل سامنے محض دس فٹ کے فاصلے پر ہے اور گلی کے سارے بچے جمعہ کی نماز کے لئے دارالعلوم ہی کی
مسجد جاتے ہیں،بہت کڑا وقت تھاسانس اچانک ہی چھوٹے ہوگئے تھے، آنکھوں میں دھواں بھر گیا تھا اور دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو چکی تھیں میڈیا اورسوشل میڈیامتضاد خبروں سے اٹا پڑا تھااور بالآخر دل دکھانے والی اس خبر کی تصدیق ہوگئی اور مولانا حامد الحق محض ستاون برس کی عمر میں اپنے شہید باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سرخرو ہو گئے تھے‘اندھیروں نے ایک اور مینارہ ئ نور کو شہید کر دیاتھا، اکوڑہ خٹک نے ایک بار پھر ایک بہت بڑا تاریخی جنازہ اٹھتے دیکھا،تعزیت کے لئے پوری دنیا امڈ آئی تھی برخوردار شفقت قریشی نے دوست مہربان میجر عامر کے حامد الحق شہید کے تعزیتی بیان پر مبنی کسی نجی نیوز چینل کی ایک ویڈیو شیئرکی تو د ل پھر سے بھر آیا قرانی آیات سے مزین اتنی اچھی مدلل اور متوازن گفتگومیں میجر عامرؔ نے استاد محترم سمیع الحق کی شہادت کا بھی ذکر کیا تو مجھے اسی لمحے یاد آیا کہ 2018 ء میں جب میں امریکہ سے واپس اسلام آباد پہنچا تو میں نے میجر محمد عامر کو حسب معمول صوتی پیغام بھیجا جواب میں ان کا فون آیا کہ میں تو آپ کے گاؤں جا رہا ہوں مولانا سمیع الحق کی طبیعت ناساز ہے میں بیمار پرسی کے لئے جا رہا ہوں،میں نے تفصیل پوچھ کر انہیں بتایا کہ مجھے تو موٹر وے سے پشاورجانا تھا مگر نہیں اب میں استاد محترم کی عیادت کے لئے آ رہا ہوں آپ بھی میرے پہنچنے تک وہیں رکئے گا، میجر عامر نے کہا کہ آپ طویل سفر سے آ رہے ہیں بہتر ہوگا کہ آج آرام کر لیجئے اور کل پھر آ جائیں۔ میں نے کہا نہیں میں آرہا ہوں اور ایسا ہی کیا استاد محترم اس دن بہت مضمحل تھے لیکن بہت گرم جوشی سے ملے، اپنے پاس بٹھایا میجر عامر نے انہیں بتا یا کہ ائر پورٹ سے سیدھا یہیں آئے ہیں تو انہوں نے میرے ہاتھ پر تھپکی دے کر پیار کیا۔ تعزیتی پیغام سننے کے بہت دیر بعد میں نے میجر عامر کو صوتی پیغام بھیج کر اتنے نپے تلے شستہ اور کہیں دل کے بہت اندر سے نکلے ہوئے تعزیتی پیغام کے لئے شکریہ ادا کیا تو جواب میں ان کا فون آیا اور کہنے لگے کہ جس وقت میں تعزیتی گفتگو کررہا تھا تو مجھے بہت شدت سے وہ دن یاد آیا جب آپ امریکہ سے واپسی پر مولانا سمیع الحق شہید کی عیادت کے لئے آئے تھے،اب میں انہیں کیا بتاتا کہ میں ابھی شہید باپ کے شہید بیٹے مولانا حامد الحق سے آخری ملاقات کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ آپ کی گفتگو نے مجھے استاد محترم سے ہونے والی آخری ملاقات کی بھی یاد تازہ کرا دی‘لکھنؤ کے عرفان صدیقی نے ٹھیک ہی تو کہا ہے
خدا کرے صف ِ سر د اد گاں نہ ہو خالی
جو میں گروں تو کوئی دوسر ا نکل آئے