اب میں اْن سر و صنوبر کو بہت ڈھونڈتا ہوں

پھاگن کی رت  فروری کے وسط سے اپنے سفر کا آغاز کرتی ہے یہ رت اپنے ساتھ تیز ہوائیں لاتی ہے او ر یہ ہوائیں سردی سے خشک اور سکڑتے ہوئے  زرد پتوں کے گرانے کے کام پرمامور ہو جاتی ہیں اسی بنا پر پھاگن کو پت جھڑ کا موسم بھی کہا جاتا ہے، پھاگن رت خزاں کے سنہرے موسم کے ختم ہونے اور بہار کے آنے کی نوید بھی سناتی ہے فروری کے دن باقی مہینوں کی نسبت کم ہوتے ہیں لیکن زمستاں کے ستائے ہوؤں کے لئے یہ لمبا سانس لینے کا وقت ہوتا ہے  یوں رکے ہوئے بہت سے کام رواں ہو نا شروع ہو جاتے ہیں، سوشل میڈیاپر یار لوگوں کی مصروفیات اتنی ہوتی ہیں کہ انہیں موسموں کے آنے جانے کی خبر نہیں ہوتی، کتنی ہی پورے چاند کی راتیں آ کر چلی جاتی ہیں،سیل فون پر جھکے ہوئے سر آسمان کی طرف دیکھنے کی زحمت کب گوارا کرتے ہیں، گزشتہ روز حلقہئ ارباب ذوق پشاور کی نشست دوستی ویلفیئر آرگنائزیشن میں تھی اور خوشگوار موسم کی وجہ سے کھلے آسمان کے نیچے تھی،مجھے سٹیج پر بیٹھنے کا موقع ملا تو میں نے دیکھا کہ آسمان کے کناروں سے رفتہ رفتہ پورے چاند کی ٹکیہ اٹھتی نظر آ رہی ہے، میں نے احباب کی توجہ دلائی تو کچھ دوستوں نے مڑ کر دیکھا تو ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی، جانے کتنے دنوں بعد انہیں یہ موقع ملا تھا، کم کم سہی مگر کچھ دوست ایسے ہیں کہ انہیں شب مہتاب کا انتظار رہتا ہے ان میں سے ایک دوست مہرباں میجر عامر بھی ہیں جب حلقہ کی نشست سے فارغ ہو کر میں نے سیل فون دیکھا تو ان کا برقی پیغام آیا پڑا تھا، کہ ”اس وقت ٹیرس پر دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوں سامنے ہی مری کے پہاڑوں پر غروب آفتاب کا حسین منظر نظر آ رہا ہے اور سورج کی شنگرفی کرنیں دیکھ کر میں نے دوستوں سے آپ کا شعر 
وہ شفق ہو کہ سمندر کہ مرا دل  ناصر
شام ہوتی ہے  تو ہر چیز لہو  روتی ہے   
شیئر کیا  تودوستوں نے شعر کو سراہتے ہوئے بیک زبان کہا کہ ایک مشاعرہ کا ڈول ڈالنا چاہیے،جلد ہی ایسا ہو گا۔  میجر عامر کی محبت کہ انہیں اپنے استاد ِمحترم احمد فراؔز کے اشعار کے علاوہ جتنے بھی شعر یاد ہیں ان میں بیشتر شعر میرے ہیں، بات فروری کی مصروفیات کی ہو رہی تھی تو مجھے یاد آیا کہ دو دن پہلے کسی پوسٹ پر کمنٹس کرتے ہوئے جواں سال عبد الرحمن ارحم ؔنے لکھا تھا کہ”پشاور میں فروری کے مہینے میں ادبی بہار آئی ہوئی ہے“  بالکل درست، کیونکہ ابھی فروری کے پندرہ دن ہوئے ہیں مگر ایک طرف سنڈیکیٹ آف رائٹرز نے ہورائزن اور حلقہ ارباب ذوق پشاور کے اشتراک سے یکے بعد دیگرے دو بہت بڑی ادبی تقریبات کا انعقاد کیا پہلے پرو فیسر خاطر غزنوی کے صد سالہ جشن ولادت کے سلسلے کی پہلی تقریب تھی جب حق بابا آڈیٹوریم میں خاطر غزنوی کے نام پر واقعی پورا قلم قبیلہ ا مڈ آیا تھا اور دوسری تقریب بھی اتنی ہی پر ہجوم تھی جو پروفیسر خالد سہیل ملک  کے اردو افسانوں کے پہلے مجموعہ ”مون سون“ کی پذ یرائی کی تقریب تھی، اس شام پروفیسر ڈاکٹر تاج الدین تاجور ؔکی صدارت میں بہت عمدہ مضامین اور تاثرات مسرور حسین،ڈاکٹراویس قرنی،ڈاکٹر سہیل احمد،ڈاکٹر خالد مفتی،مشتاق شباب اور ڈاکٹر نذیرتبسم نے پیش کئے جب کہ ڈاکٹر اسحق وردگ نے ایک اچھی نظم کا خراج محبت پیش کیا، ادھر ادب دوستی اور ادب پروری کے حوالے سے معروف و مقبول ”دوستی ویلفیئر آرگنائزیشن“ کا سالانہ ’پشاور ادبی میلہ‘  بھی فروری ہی میں سجایا گیا یہ چوتھا ادبی میلہ جو گزشتہ سال کے گیارہ روزہ ادبی میلہ کے تسلسل میں  دوستی کے فعال دوست آصف ریاض،ڈاکٹر سید حنیف رسول  اسلم میر ؔ اور ڈاکٹر عرفان خان  کی مساعی سے اس بار  ”بارہ روزہ  پشاور ادبی میلہ“ کا ڈول ڈالا جا رہا ہے اس کی افتتاحی تقریب بھی دیدنی تھی، جس میں جامعہ پشاور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد نعیم قاضی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا جب کہ اس ادبی میلہ کے چیف آرگنائزر ڈاکٹر سید حنیف رسول نے پشاور ادبی میلہ کے حوالے سے بھرپور تعارفی گفتگو کی‘برقی پیغامات میں ڈاکٹر عبد الرؤف رفیقی، پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف اور پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز کے پیغام شامل تھے، اس کے ساتھ معروف کالم و ناول نگار شاہد صدیقی کی کتاب آسماں در آسماں، معروف شاعر و گلوکار سعید پارس کے ہندکو شعری مجموعہ ’پھل خیالاں دے، ڈاکٹر ظفراللہ بخشالی کی تحقیقی کتاب پختو ادب کے سندی تحقیق‘ اور صوفی دانشور اقبال سکندر کے جواں سال و جواں فکر ناول نگار برخوردار فہیم سکندر کے انگریزی ناول Amidst the dead  کی رونمائی بھی افتتاحی تقریب کا حصہ تھی، اب اس ادبی میلہ میں ادب و ثقافت کے حوالے سے کم و بیش سو نشستیں ترتیب دی گئی ہیں، اس طرح  فروری کی پت جھڑ رْت میں ’ادبی بہار‘  پورے جوبن پر ہے فروری ہی میں بزم بہار ادب پشاور نے ڈاکٹر نذیر تبسم کے نئے شعری مجموعہ ”یادوں کے منظر نامے سے“ کی تقریب رونمائی کا اہتمام بھی کیا اور عزیز اعجاز اور ڈاکٹر فضل کبیر نے کیا اچھے مضامین پڑھے،شاہدہ سردار،عظیم نیازی، اقبال سکندر اور مشتاق شباب سمیت احباب نے بہت عمدہ تاثرات پیش کئے گئے، خالد سہیل ملک نے نذیر تبسم کا ایک بہت عمدہ اور متوازن خاکہ لکھ بھیجا تھا جو جواں فکر مسرور حسین نے پڑھا، چند باتیں میں نے بھی ہمدم دیرینہ کے حوالے سے کیں کیونکہ ان سے دوستی اب نصف صدی کے قصّہ سے بھی کئی ماہ و سال آگے بڑھ گئی ہے،”میں زندگی کے اس موڑ پرپیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو قلم قبیلہ کے کتنے ہی طرح دار دو ست وقت کے غبار میں کھو گئے ہیں اور ایسے کہ ’اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہو گئے‘ لیکن جو جیالے وفاداری بشرط استواری کے کھونٹے سے بندھے آج بھی بھرپور توانائی کے ساتھ کار ِادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہو ئے ہیں ان میں سے ایک معتبر اور مستند آواز نذیر تبسمؔ کی بھی ہے‘ ان کا شعر مشاعروں میں تو یقیناً  شعر شور انگیز بلکہ شعر شور انگیخت ثابت ہو تا ہے لیکن کاغذ پر بھی اپنی جولانیاں اتنی ہی شد و مد سے دکھاتا  اور پڑھنے والوں کو بڑی سہولت کے ساتھ اپنا طرف دار بنا دیتا ہے، گزرتے وقت کے ساتھ ان کے شعر کے لہجہ میں ایک ٹھہراؤ اور تدبر کی سنجیدگی در آئی ہے بایں ہمہ ان کے اندر ماضی کے کھلنڈرے ایام کا پروردہ شوخ بچہ بھی ان کو گدگداتا رہتا ہے، سو وہ چاروں اور پھیلے ہوئے سفاک اور خون آشام لمحوں کی تصویریں بھی بناتے ہیں مگر دوسرے ہی لمحہ وہ  حیرتوں کی بارہ دری میں کھڑے ہو کر حسن سے اٹھکیلیاں کرنے سے بھی ذرا نہیں چوکتے  وہ کسی زاویہ سے بھی ماضی پرست نہیں لگتے کیونکہ میں نے انہیں ہمیشہ حال مست دیکھا ہے مگر وہ اتنے کٹھور بھی نہیں کہ اپنے سامنے اپنے شہر کی وضع دار اقدار میں بگاڑ کا تماشا بنتے دیکھ کر آنکھیں بند کر دیں  سو ان کا شعر لاکھ حسن و عشق کی سرشاریوں میں مست و الست رہے مگر وہ  ہر دوسرے لمحے اس دور کی طرف لوٹ جاتے ہیں جہاں ان کے گردو پیش بچھڑنے والوں کی محبتوں کی خوشبوئیں اس کو اپنی بانہوں میں بھر لیتی ہیں، جہاں ان کی اپنی ماں کی حسین یادیں ہیں‘بزرگوں کی شفقتیں  اور محبتیں ہیں،مان لیں کہ پشاور ہی ان کے شعر کے منطقہ میں ایک ایسا مر کزہ بنا ہوا ہے جس سے ان کے دل و دماغ کے کئی رشتے ہیں، وہ پشاور کی عظمت رفتہ کا نوحہ خواں  اس لئے بھی ہے کہ اب ان گلی کوچوں میں انہیں پشاور کی پہچان وہ وضع دار پشاوری نظر نہیں آتے۔
 جو مری بستی کی پہچان تھے‘ سایا  تھے کبھی
 اب میں ان سر و صنوبر کو بہت ڈھونڈتا ہوں