خوش فہمیوں نے گھیرے رکھا ہم جدھر گئے 

جاتی ہوئی سردی جانے کیا بھول بیٹھی تھی کہ گزشتہ دو دنوں کی بارش نے اسے یاد دلا دیا کہ وہ لوٹ آئی ہے اور اب چیت کے آنے تک دھوپ اور بادلوں کی یہ آنکھ مچولی یوں ہی جاری  رہے گی‘ گزشتہ ہفتہ مجھے پہلے اسلام آباد اور پھر لاہور جانا تھا، پشاور سے ایک خنکی بھری شام نکلا مگر اسلام آباد میں کچھ تو موسم کا مزاج گرم تھا کچھ پروین شاکر ٹرسٹ کی طرف سے میزبان کاشف احمدکے گرمجوشی سے استقبال نے اورگرما دیا تھا‘ دراصل پروین شاکر ادبی میلہ کو سجانے سنوارنے میں ٹرسٹ کے تمام کارکن،خصوصاََ ٹرسٹ کی چیئرپرسن پروین قادر آغا، رعنا سیرت اور سیما ماجد، اپنا اپنا فعال کردار ادا کرتے ہیں تاہم اس کی تمام تر خوبصورتی کے پیچھے مظہر الاسلام ہی کا تخلیقی ذہن کار فرما ہو تا ہے‘ اس ادبی میلا کے اوائل میں ہر سال عکس خوشبو کے نام سے صرف ایک ایوارڈ دیا جاتا تھا اوریہ ایوارڈ سال کے بہترین شعری مجموعہ کے لئے مخصوص ہوتا تھا (میری خوش بختی کہ میرے شعری مجموعہ ’شامیں فریب دیتی ہیں‘ کو بھی یہ ایوارڈ مل چکا ہے) مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ربع صدی پیشتر 1998ء پشاور میں بھی ایک بار یہ شاندار ادبی میلہ سجا تھا اْس سال عکس خوشبو ایوارڈ کے لئے ”دریائے گماں“ کا انتخاب کیا گیا تھا جو مرحوم غلام محمد قاؔصر کا تیسرا شعری مجموعہ ہے اور وہ تقریب مرحوم غلام محمد قاصر کی آخری ادبی تقریب تھی اس دن بھی ان کی طبیعت مضمحل تھی اس لئے پروین شاکر کے فن و شخصیت پر لکھے ہوئے ان کے بہت عمدہ مضمون پڑھنے کے لئے مجھے ان کی بجائے (غالباً) محمدعباس کو دعوت دینا پڑی تھی، جس سال میرے شعری مجموعہ کو ایوارڈ ملنا تھا پروین شاکر کی غزلیں گانے کے لئے میں پشاور سے شاعر اور گائیک سعید پارس کو بھی اپنے ساتھ لے گیا تھا جس نے وہاں بہت عمدہ پرفارمنس دی تھی، بعد کے برسوں میں  عکس خوشبو ایوارڈ شاعری کے ساتھ ساتھ فکشن کو بھی دیا جانے لگا اور اب کچھ برسوں سے پروین شاکر ٹرسٹ کے بینر تلے مزید باوقار ایوارڈز بھی دئیے جا رہے ہیں،اس برس یہ میلا ایک روزہ تھا جس میں ایوارڈز کے ساتھ ساتھ چند بہت اچھی ادبی نشستیں بھی ہوئیں جن میں کتب کی تعارفی تقریب، پروین شاکر کی شاعری کی میرا تھن ریڈنگ،محمد سلیم سیٹھی کی ’عطار کی مثنوی کے منظوم ترجمہ اور شرح کے حوالے سے کتاب ”مصیبت نامہ۔اک سفر ِ آگہی“ پر گفتگو۔ ایک اہم مذاکرہ بعنوان ”کتابیں اداس ہیں۔کتابوں کا مستقبل“ انگریزی کتاب ”TRAGEDY AND DEFIANCE“ جس میں انگریزی شاعرہ سلویا پلاتھ،فارسی
 شاعرہ فروغ فرخ زاد اور اردو شاعرہ پروین شاکر کی زندگی اور شاعری کا احاطہ کیا گیا ہے، ایک بہت عمدہ نظمیہ مشاعرہ ”جدید نظم کی آواز“ اور ایک بھرپور غزل کا مشاعرہ ”جدید غزل کا لہجہ“ بھی ان تقریبات کا حصہ تھا، آخرالذکر غزل مشاعرہ کی صدارت کا اعزاز میرے حصے میں آیا جب کہ افتتاحی تقریب کے بعد کی ادبی میلا کی پہلی تقریب کی نظامت بھی میرے سپرد تھی، جب کہ صبح سے شام تک کی تقریبات کی نظامت میرے بہت اچھے دوست محبوب ظفر نے بہت خوبصورتی اور کامیابی سے نبھائی، کسی بھی ادبی یا ثقافتی اکٹھ کا اصل لطف دوستوں سے تجدید ملاقات بھی ہوتا ہے چنانچہ اسلام آباد کے دوستوں خصوصاً سید ابرار حسین، خاور احمد اورحسن عباس رضا کے ساتھ ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان کے احباب طاہر شیرازی،خورشید ربانی اور جواں سال قیس رضا کو مل کربہت اچھا لگا کتابوں کے تحائف بھی ملے،تقریب چونکہ پنج ستاری ہوٹل میں تھی اس لئے موسم معتدل تھا البتہ اسلام آبادکی شام میں خنکی گھلی ہوئی تھی آبپارہ میں دکانوں اور سڑکوں پر بھیڑ بہت زیادہ تھی اس لئے بے مصرف گھومتے ہوئے اجنبیت کا احساس ہوا کبھی یہ شہر اور یہ آبپارہ مارکیٹ کی پر اسرار سی شام بہت اپنی اپنی لگتی تھی، فائلوں اور کنکریٹ کے اس شہر کے باسی صرف ضرورت کے تحت ہی مارکیٹ میں آتے،گنی چنی دکانیں تھیں کامران کیفی سے شروع ہونے والا آبپارہ،کراؤن بیکری سے ہوتا ہوا تین چار بغلی گلیوں کی دکانوں کے بعد مارشل بیکرزپر سمٹ جاتا، البتہ اس مارکیٹ کی رونق شام ڈھلے اس وقت دیدنی ہوتی جب اسلام آباد یونیورسٹی سے آنے والے طلبہ اور طالبات یہاں وہاں گھومتے پھرتے اور ’اودے اودے نیلے نیلے پیراہن‘ اپنی بہار دکھلانے لگتے اور یہ سب سرگرمیاں موسموں سے بے نیاز تھیں،کامران کیفی کی کافی بہت پسند کی جاتی تھی‘ سو دل بہت چاہا مگر اب کامران کیفی کہاں تھی سو واپس اپنے کمرے آگیا اور دوسرے دن صبح فجر کے فوراً بعد صبح ساڑھے چھ بجے کی بس سے مجھے لاہور جانا تھا جہاں ایک اور ادبی میلا بعنوان ”تخلیق اعراف فن ایوارڈز اور تخلیق دوست ایوارڈز“بپا ہونا تھا یہ پر رونق ا کٹھ بھی ہر سال باقاعدگی سے 
منعقد ہوتا ہے‘مانو ایک چھت کے نیچے اردو زبا ن کی بہت بڑی شخصیات اکٹھی ہو جاتی ہیں،میں نے دوست ِ عزیز نوید صادقؔ کو فون کر کے بتایا تخلیق کی تقریب میں شرکت کرنے میں لاہور آ رہا ہوں انہوں نے کہا مجھے بس ٹر مینل اوروقت بتاؤ اور کسی سے کہنے کی ضرورت نہیں، میں نے بتا دیا تو ان کا ڈرائیور پھر مسلسل میرے ساتھ رابطے میں رہا، اور جب میں ڈائیوو کے ٹھوکر نیاز بیگ والے ٹرمینل پہنچا تو وہ بس کے باہر کھڑا تھا، لاہور میں اگرچہ بہت سے دوست ہیں تاہم ڈاکٹر یونس خیال،کرنل اسد، ڈاکٹر کرنل وقار اور نوید صادقؔ  سے نہ ملوں تو لگتا ہے لاہور گیا ہی نہیں، یہی حال عزیز از جاں عطاء الحق قاسمی کا بھی ہے لیکن خود سے خود ہی ان کی مصروفیات کا بہانہ بنا کر ان سے ملے بنا واپس آ جاتا ہوں، اس بار البتہ شعیب بن عزیز سے ملنے کا ارادہ تھا ان سے میری ایک ہی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور انہوں نے پاکستان بھر سے سات کالم نگاروں کو مدعو کیا تھا پشاور سے قرعہ فال میرے نام نکلا تھا اس دوران شعیب بن عزیز سے بھی کسی عشائیہ میں سرسری سی ملاقات ہوئی تھی،پھر نعمان محمود نے گزشتہ سال ان کے اعزاز میں ایک تقریب برمنگھم میں رکھی میں بھی مدعو تھا مگر شعیب بن عزیز امریکا سے دیر سے آئے اور جلد پاکستان لوٹ گئے تھے تو مل نہ پائے۔ ویسے تو چار دانگ عالم میں مشہور،مقبول اور زبان زد خاص و عام اپنے اس شعر کی وجہ سے دل کے قریب رہتے ہیں 
 اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں 
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں 
لیکن اس بار کراچی میں ”ساکنان شہر قائد کے سالانہ عالمی مشاعرے“ میں ان کو بہت قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا اور تخلیق کی دعوت ملی تو انہیں برقی پیغام بھیجا جواب آیا ملنا لازمی ہے وعدہ بھی کر لیا مگر نوید صادق مہمانوں کے بارے پکے پٹھان ہیں،دو ٹوک کہتے ہیں ”بھائی آنا آپ کی مرضی مگر جانا میری مرضی“ نوید صادق جتنا اچھے شاعر، نقاد اور مدیرہیں اتنے ہی عمدہ اور بے تکلف دوست بھی ہیں، سول انجینئر ہونے کے ناتے اپنی از حد مصروفیات ترک کر کے دوستوں کو بھر پور وقت دیتے ہیں، ڈاکٹر یونس خیال بھی ان ہی کے ہم خیال ہیں اور چند گھنٹوں کے نوٹس پر شاندار تقریب کا اہتمام کر لیتے ہیں اب کے ناسازیئ طبع کے باعث نہیں مل پائے البتہ فون پر رابطے میں رہے، لاہور کی کچھ اور باتوں کو مؤخر کرتے ہوئے نوید صادق ہی کے شعر پر اکتفا کرتا ہوں 
ایسے نظر فریب اجالے تھے ہر طرف
 خوش فہمیوں نے گھیرے رکھا ہم جدھر گئے