باقی ماندہ انتخابی مراحل

اب جبکہ نگران حکومت نے ملک میں حسب وعدہ وقت مقررہ پر الیکشن کرواکر اپنا ایک اہم فریضہ ادا کر دیا ہے تو تمام سیاسی قائدین کا بھی فرض ہے کہ وہ مرکز اور صوبوں میں آئین کی روشنی میں حکومتیں تشکیل دینے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں اگر کسی پولنگ سٹیشن پر کوئی شکایت بھی ہو تو اس پر الیکشن کمیشن کے حکام کے ساتھ گفت وشنید کے ذریعہ حل کیا جائے تاکہ الیکشن کے اگلے مراحل بھی جلداز جلد طے ہو سکیں الیکشن کے نتائج کی روشنی میں مرکز اور صوبوں میں حکومتوں کا فوری قیام ضروری ہے تاکہ ملک کا جام شدہ معاشی پہیہ فوراً چل پڑے ‘ اور سیاسی جماعتوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ آپس کی چھوٹی چھوٹی چپقلشوں کو بھلا کر ملک میں جمہوری نظام کے قیام کی خاطر آپس میں افہام و تفہیم قائم رکھ کر ایسا سیاسی ماحول بنائیں جس سے مرکز اور صوبوں میں حکومتوں کا قیام آسانی سے عمل میں آ جائے وہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کریںیہ ان کے امتحان کا وقت ہے اگر وہ اس میں فیل ہو گئے تو یہ جمہوریت کی شکست ہو گی۔ ملکی میڈیا پر سیاسی مبصرین نے 8 فروری کو ہونے والے الیکشن کے نتائج پر تبصروں کا ایک طولانی سلسلہ شروع کر رکھا ہے 1970اور 1977کے الیکشن کے وقت ملک میں صرف پی ٹی وی تھاان جملہ ہائے معترضہ کے بعد چند عالمی سطح کے اہم واقعات کا ذکر بے جانہ ہوگابھارت میں آ سام‘ گجرات‘ اتر پردیش اور دہلی میں مسلمانوں کی املاک مسمار کرنے سے ہزاروں مسلمان بے گھر ہو چکے ہیں اسرائیل جنگ بندی کی تجویز پر ڈھٹائی دکھا رہا ہے اور جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے وہ غزہ کے ایشو پر اسرائیل کی ھلہ شیری سے باز نہیں آ رہا چین کایہ تازہ ترین بیان نہایت حوصلہ افزاءہے کہ الیکشن پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور اسے دہشت گردانہ حملوں پر افسوس ہے ایرانی صدر نے بالکل درست کہا ہے کہ مشرق وسطی میں امریکی فوج کی موجودگی تباہ کن ہے امریکہ نے خطے کو کبھی سلامتی نہیں دی عراق شام اور افغانستان کی تباہی سب کے سامنے ہے‘ اب ذکر ہو جائے امریکہ کا جہاں امریکی صدر جو بائیڈن اپنی یادداشت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر بھڑک گئے اور کہا کہ وہ یادداشت کے مسائل سے دوچار نہیں ہیں۔ ایک خصوصی پراسیکیوٹر نے کہا تھا کہ بائیڈن کو تو اپنے بیٹے کی وفات کا سال بھی یاد نہیں۔خصوصی وکیل رابرٹ ہوئرنے کہا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کو تو اپنے بیٹے کا سال وفات بھی یاد نہیں، جس پر وہ بھڑک گئے اور غصے بھرے لہجے میں کہا کہ ان کی یادداشت اچھی ہے۔نومبر میں اگلے صدارتی انتخابات سے قبل ان کی ذہنی صحت کے حوالے سے خصوصی پراسیکیوٹر کی تیار کردہ رپورٹ کے بعد صدر بائیڈن نے اپنی یادداشت اور ذہنی صحت کے حوالے سے خدشات کو مسترد کردیا۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ صدر"کمزور یادداشت کے ساتھ عمر رسیدہ رہنما ہیں۔" اس میں مزید کہا گیا ہے کہ جب استغاثہ نے ان سے پوچھا تھا کہ انہوں نے اس وقت کے صدر براک اوبامہ کے دور میں نائب صدر کے طورپر اپنی خدمات کب شروع کیں یا ان کے بیٹے بوبائیڈن کی وفات کب ہوئی تھی، تو وہ نہیں بتاسکے۔اکیاسی سالہ صدر بائیڈن نے وائٹ ہاوس میں صحافیوں کے ساتھ بات چیت کے دوران کہا، یہ ٹھیک ہے کہ میں ایک بوڑھا آدمی ہوں لیکن میں جانتا ہوں کہ میں کیا کر رہا ہوں اور مجھے یادداشت کے مسائل نہیں ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ پراسیکیوٹر کی رپورٹ کی مذمت کرتے ہیں۔بائیڈن نے غصے بھرے لہجے میں کہا کہ رپور ٹ میں یہاں تک کہ ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ میرے بیٹے کی موت کب ہوئی تھی۔ آخر انہیں ایسی باتیں کہنے کی ہمت کیسے ہوئی؟ انہوں نے کہامجھے کسی کی ضرورت نہیں جو مجھے یہ یاد دلائے کہ میرے بیٹے کا انتقال کب ہوا۔"خیال رہے کہ بوبائیڈن سن 2015 میں دماغی کینسر کے مرض میں چل بسے تھے۔