مصنوعی ذہانت : ممکنہ خطرات

ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا پر مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ مواد کا استعمال سیاست میں بھی ہونے لگا ہے۔ جنریٹیو اے آئی ٹولز جیسے ڈی اے ایل ای‘ چیٹ جی پی ٹی‘ وغیرہ جیسے آلات کسی بھی قسم اور کسی کے بھی پسند کا مواد بنانے میں مدد کرتے ہیں اُور اِن کا استعمال کرتے ہوئے آڈیو‘ ویڈیو یا متن (ٹیکسٹ) تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے تخلیقات کرنے والے اِن اوزاروں کا غلط معلومات پھیلانے کے لئے بھی استعمال ہو رہا ہے اور اِس بات کا خدشہ ہے کہ وقت کے ساتھ مصنوعی ذہانت کا غلط استعمال زیادہ ہونے لگے۔ ورلڈ اکنامک فورم نے اپنے حالیہ اجلاس میں اِس حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ دنیا کو لاحق شدید خطرات میں غلط معلومات دوسرا سب سے بڑا خطرہ ہے تاہم یہ رجحان نہ تو نیا ہے اور نہ ہی مصنوعی ذہانت کے لئے مخصوص ہے۔ تاریخی طور پر غلط معلومات کو ہمیشہ سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر قدیم یونان میں اس کا استعمال کیا گیا۔ پرنٹنگ پریس کو انگریزوں نے نپولین کا مذاق اڑانے کے لئے استعمال کیا۔ سنسنی خیز سرخیوں نے ہسپانوی امریکی جنگ کے دوران ہسپانوی مخالف جذبات کو پھیلایا۔ حالیہ تاریخ میں‘ مصنوعی ذہانت سے پہلے کے دور میں‘ جعلی یا فوٹوشاپ شدہ تصاویر کو حریف سیاسی رہنماو¿ں کے خلاف استعمال جاتا رہا ہے لہٰذا یہ سیاسی مہمات میں حربے کے طور پر جڑ پکڑ چکی ہے اُور اب جبکہ اے آئی ٹولز وسیع پیمانے پر دستیاب ہیں تو اِس کے غلط استعمال کا رجحان بھی زیادہ ہوا ہے۔ ’انتخابات کے عالمی سال کے دوران ایسی کئی مثالیں سامنے آ چکی ہیں جن میں مصنوعی ذہانت سے استفادہ کیا جارہا ہے جیسا کہ امریکی صدر بائیڈن کی ڈیپ فیک روبو کال کی گئی جس کا مقصد نیو ہیمپشائر کے ڈیموکریٹ ووٹروں پر دباو¿ ڈالنا تھا۔ اسی طرح پاکستان میں ایک سیاسی جماعت نے مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ اپنے رہنما کے بیانات اُور تصاویر کا استعمال کیا ہے۔ اس طرح کے واقعات میں اضافے کی توقع کی جاتی ہے‘ جہاں جھوٹ یا مبالغہ آمیز دعوو¿ں کو جان بوجھ کر بڑے پیمانے پر پھیلایا جاتا ہے۔ مصنوعی ذہانت دو وجوہات کی بنا پر خطرے کو بڑھاتی ہے۔ غلط معلومات کے پیمانے اور رفتار میں اضافہ کرکے‘ اسے زیادہ حقیقت پسندانہ اور زیادہ متاثر کن بنایا جا سکتا ہے۔ ان مثالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین کو خدشہ ہے کہ مصنوعی ذہانت ”آن لائن غلط معلومات کا باعث ہوگی“ اُور اگر ایسا ہوتا ہے تو اِس سے جعلی خبروں پر یقین میں اضافہ ہو گا اُور سماجی و سیاسی پولرائزیشن کا خطرہ ہے۔ جب محدود ڈیجیٹل خواندگی کو سوشل میڈیا پر انحصار کے ساتھ جوڑا جائے گا تو اِس سے مصنوعی ذہانت کے ذریعے پھیلائی جانے والی غلط معلومات معاشرے میں سچائی کی حیثیت کو متاثر کریںگی۔ یہاں تک کہ اگر لوگ جو کچھ دیکھتے یا سنتے ہیں اس پر یقین نہیں کریں گے یا پھر افسانوی باتوں کو حقیقت سمجھنا شروع کر دیں گے اُور سچائی مشکل سے شناخت ہو سکے گی لہٰذا اس سلسلے میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے تخلیق کردہ مواد آدھا سچ ہوتا ہے جس کے پیچیدہ جال کو بے نقاب کرنا یقینی طور پر مشکل کام ہے اور چیلنج دو طرفہ ہے۔ غلط معلومات سے نمٹنا اور سیاسی مہمات میں اِسے پروپیگنڈے کے طور پر پیش کرنے سے چیلنجز پیش ہوئے ہیں۔ پہلے چیلنج کو ڈلیوری سسٹم‘ سوشل میڈیا پر توجہ مرکوز کرکے حل کیا جاسکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کو روکنے کے لئے حکومت کو سوشل میڈیا کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے۔ ایسے اقدامات کو ’ٹرسٹ اینڈ سیفٹی‘ قواعد کہا جاتا ہے اُور دنیا بھر میں اِن پر کام ہو رہا ہے اُور اگرچہ اس سلسلے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے لیکن میٹا کے نگران بورڈ کی رکن نگہت داد کا کہنا ہے کہ یہ کمپنیاں مغربی جمہوریتوں میں انتخابات کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو بڑے پیمانے پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاو¿ہ‘ سماجی اینٹی باڈیز تیار ہوسکتی ہیں‘ جس سے لوگ اس مواد کو قبول کرنے کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہوجاتے ہیں جسے وہ سچ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کا غلط استعمال روکنے کے لئے تکنیکی حل بڑے سماجی و سیاسی مسائل کو حل کرنے کے لئے ناکافی ہے لہٰذا دوسرا اور زیادہ اہم کام ایک صحت مند سیاسی کلچر کو پروان چڑھانا ہے‘ جہاں پروپیگنڈے کی قبولیت کم ہو اور سیاسی مہمات میں ایک دوسرے کی کردار کشی کی بجائے حقیقی قومی اُور عوامی مسائل کے حل پر مبنی خیالات اُور تصورات پیش کئے جائیں۔ اگر سیاسی عناصر باخبر اور مستند بیانیے پر توجہ مرکوز کریں تو اِس سے نہ صرف غلط معلومات کا مقابلہ کیا جا سکے گا بلکہ عوام کی صلاحیت بڑھانے میں بھی مدد ملے گی جو صحت مند جمہوریتوں کا ایک ناگزیر عنصر ہوتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر بختاور افتخار۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)


مصنوعی ذہانت غلط معلومات کے خلاف جنگ ہے لیکن یہ محض ایک آئینہ ہے‘ جس میں ہم اپنی خامیوں کی جھلک دیکھتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت سے زیادہ مہلک مسائل ہیں جو انسانی معاشرے کی خرابیوں کو چھپانے کے لئے تکنیکی آڑ لئے ہوئے ہیں۔