موروثیت زدہ جمہوریت 

کیا کوئی بھی جمہوریت پسند فرد اس قسم کی پارلیمانی جمہوریت کو پسند کرے گا کہ جو اس وقت وطن عزیز میں لاگو ہے اس میں اور بادشاہی نظام میں آ خر فرق ہی کیا ہے بادشاہی نظام میں بادشاہ اپنی زندگی میں ہی میںاپنا ولی عہد نامزد کر دیتا تھا اور جو جمہوری نظام اپنے ہاں نافذ ہے اس میں بھی ایک آدھ پارٹی کو چھوڑ کر ہر سیاسی جماعت کے قائد نے انٹرا پارٹی الیکشن کے ذریعے اپنی اپنی پارٹی کے اندر کلیدی مناصب پر ایسے افراد منتخب کرو ا رکھے ہیں کہ اگر کل کلاں کسی بھی وجہ سے وہ اپنی پارٹی کے قائد نہ بھی رہے تو اس کی جگہ اس کا بیٹا بیٹی یا بھائی اس مسند پر موجود رہے گا ‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان پارٹیوں میں ان کے قائدین کے قریبی رشتہ داروں کے علاوہ اور کوئی فرد موجود نہیں کہ جن کو آ گے لاکر پارٹیوں کے اندر کلیدی مناصب پر تعینات کیا جائے جو انہوں نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو اپنا جانشیں بنا رکھا ہے جب تک اس موروثی سیاست کا خاتمہ نہیں ہو گا‘ وطن عزیز میں صحیح جمہوریت کا نفاذ ایک خوا ب ہی رہے گا اب عوام صرف ان حکمرانوں کو جمہوریت پسند تصور کریں گے کہ جو اقتدار میں آ نے کے فورا ًبعد ملک میں انتخابی اصلاحات کے ذریعے ایسی قانو ن سازی کریں جس سے ملک کی سیاسی پارٹیوں میں موروثیت کا رستہ بند ہو جائے ۔ ملک کے سیاسی اکھاڑے میں پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر گوہر کا اترنا ایک تازہ ہوا کے جھونکے کے مترادف ہے ‘انہوں نے اپنے بول چال اور ڈھال سے سیاسی مبصرین پر ایک خوشگوار تاثر قائم کیا ہے اس قسم کے معتدل اور سنجیدہ افراد کی آج اس ملک کی سیاست میں ازحد ضرورت ہے کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے اکثر سیاسی رہنما ایک عرصے سے ایسی گفتگو کر رہے ہیں جو لایعنی کے زمرے میں شمار ہوتی ہے ۔محکمہ موسمیات نے گزشتہ برس درست پیشنگوئی کی تھی کہ نومبر 2023ءسے لے کر فروری2024ءتک ملک میں سخت پالا پڑے گا اب کہیں جا کر فروری کے وسط میں جاڑے کی شدت میں کچھ کمی کے آثار تو نمایاں ہوئے ہیں اور موسم نے انگڑائی لی ہے ۔ ماہ رمضان کا پہلا پندرھواڑہ شاید سرد رہے جس کی ا ب آمد آمد ہے ابھی سے ہی ضلعی انتظامیہ کو ملک بھر میں اشیا ئے خوردنی کا کاروبار کرنے والوں پر کڑی نظر رکھنی ہو گی جو ماہ صیام سے پہلے ان اشیا ئے خوردنی کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کے لئے انہیں گوداموں میں ذخیرہ کر دیتے ہیں کہ جن کی ماہ رمضان میں زیادہ کھپت ہوتی ہے اور پھر اس مقدس ماہ میں اسے اپنی من مانی قیمت پر فروخت کر کے راتوں رات لاکھوں روپے کماتے ہیں یہ اب پولیس کا کام ہے کہ اس قسم کے ذخیرہ اندوزوں کے گودام بے نقاب کرکے ان کو سر بمہر کرے اور عدالتوں کا یہ کام ہے کہ اس گھناونے کام میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے تعلیمی اداروں کے باہر سڑکوں پر ان طلبا ءکی تعداد دن بہ دن زیادہ ہو رہی ہے جو سگریٹ نوشی میں مبتلا ہیں بنیادی طور پر تو یہ والدین کہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں ‘کیوں کہ ماہرین نفسیات کے مطابق teenagers یعنی تیرہ برس سے انیس برس تک کے بچے منشیات کے استعمال کا شکار ہو رہے ہیں اسی طرح اس قسم کی بھی رپورٹ آ رہی ہے کہ منشیات فروخت کرنے والے تعلیمی اداروں کے اندر ٹاﺅٹوں کے ذریعے منشیات فروخت کر رہے ہیں کسی زمانے میں ہیروئن کا چرچا تھا اج کل آئیس نامی نشہ اور پاﺅڈر کا استعمال زیادہ ہو رہا ہے یہ ہیروئن کی طرح اتنا مہلک نشہ ہے اس کے عادی نشئی کی ہڈیوں میں درد ہونے لگتا ہے اگر ان کو یہ پاﺅڈر تواتر سے نہ ملے اور اس کو خریدنے کیلئے جب اس کی جیب میں پیسے نہ ہوں تو مقصد کے حصول کے لئیے پیسے حاصل کرنے کے واسطے وہ چوری چکاری کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا، کئی ممالک نے سگریٹ نوشی کو ختم کرنے کے لئے بسوں ‘ریل گاڑیوں ‘ہوائی جہازوں میں سفر کے دوران اس پر پابندی لگائی ہے وہ پبلک پارکس میں بھی کسی کو سگریٹ پینے نہیں دیتے اور نہ ھی سرکاری یا پرائیویٹ دفاتر میں وطن عزیز کی جوان نسل کو اگر ہم نے اس لعنت سے بچانا ہے تو مناسب قانون سازی کر کے سگریٹ نوشی پر پابندی لگانا ہو گی۔


 ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد اہم عالمی اور دیگر قومی مسائل کا ذکر بے جا نہ ہوگا اسرائیلی فوج کے کمانڈر جنرل آوری گوڈین کا یہ بیان خطرے سے خالی نہیں کہ اسرائیل کی فوج لبنان کے ساتھ لڑنے کیلیے تیار ہے دنیا کو پتہ ہے کہ اسرائیل کہ ہلہ شیری امریکہ کر رہا ہے ادھر اسرائیل کے غزہ میں حملے جاری ہیں اور اب تک فلسطینی شہدا ءکی مجموعی تعداد 28 ہزار ہو چکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔