اساتذہ اپنی خاموشی کب توڑینگے؟

یہ محض یونیورسٹی کیمپس ہی نہیں جہاں پر ٹریفک قوانین اور ماحولیاتی تحفظ کے قواعد و ضوابط کی نہایت دیدہ دلیری سے دھجیاں اڑائی جارہی ہیں بلکہ اس سلسلے میں پورے پشاور کی حالت دیدنی ہوگئی ہے یہ امر ہر سنجیدہ اور قاعدے قانون کی پاسداری پر یقین رکھنے والے فرد کیلئے باعث حیرت ہوگا کہ کیپٹل سٹی ٹریفک پولیس نے یونیورسٹی کیمپس میں چلنے والے ٹوسٹروک تیس چالیس سال پرانے ماحول دشمن رکشوں اور نہایت حساس اور رسکی ڈیوٹی دینے والی پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں کی چیکنگ باقاعدہ سائنسی خطوط پر معائنہ اور ناقابل استعمال گاڑیوں کی روک تھام کو اپنے فرائض میں کیوں شامل نہیں کیا؟ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ماحول کی تباہی کے ذمہ دار ان ممنوعہ ناقابل استعمال رکشوں اور بغیر فٹنس سرٹیفیکیٹ کی ان پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں کو ذریعہ آمدن بنا دیا ہے یونیورسٹی کیمپس کو ہر نوعیت کی ہلڑ بازی اور ماحول کی تباہی سے بچانے کی ضرورت اسوقت جس قدر شدت سے محسوس کی جارہی ہے شاید اس سے قبل حالت اتنی گھمبیر نہ تھی تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ رکشوں ٹیکسیوں اور پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں کے ہاتھوں نہ صرف یونیورسٹی کا ماحول تباہی سے ہمکنار ہو چکا ہے بلکہ گرلز ہاسٹلوں اور پروفیسروں اور افسران کے گھروں کی دہلیز پر اڈے قائم کرکے لاقانونیت کے ہاتھ ان کے گریبان تک پہنچ گئے ہیں مگرچھ سو سے زائد اساتذہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں‘ یہ بات تو کسی بھی عقل سلیم کے حامل فرد کیلئے سمجھنے سے بالا نہیں کہ تذکرہ بالا وجوہات اور اسکے سامنے انتظامیہ کی بے حسی نے تو یونیورسٹی کیمپس کو جنرل بس سٹینڈ میں تبدیل کردیا ہے جبکہ شہر بھر کی ریس اور سکریچنگ والی گاڑیاں ون ویلنگ والی بغیر سیلنسر موٹر سائیکلوں بھکاریوں‘سیاسی پھرتیوں‘ صفائی کی نہایت ابتر حالت اور مان مانے قیمتوں نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے نہ جانے کہ اساتذہ کس حد اور کونسی نوعیت کی بربادی کے منتظر ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ یونیورسٹی کیمپس ایک عرصہ سے ایک ایسے والی وارث کا منتظر ہے جو یہاں پر قواعد و ضوابط کی بالادستی اور عملداری قائم کرکے یونیورسٹی میں ایک حقیقی تعلیمی ماحول قائم کردے بصورت دیگر حقوق اور فرائض میں عدم توازن کی جو افسوسناک صورتحال اس وقت درپیش ہے اسے دیکھتے ہوئے کوئی بھی حقیقت پسند شخص یہ یقین نہیں کر سکتاکہ انتظام وانصرام کے ذمہ دار ان لوگوں کے ہاتھوں یونیورسٹی کیمپس میں کوئی مثبت تبدیلی واقع ہو جائے گی‘ اگر حقیقت پسندی کے دامن کو نہ چھوڑا جائے تو یہ امر ایک نہایت بڑے المیہ سے کم نہیں کہ ایک عرصہ سے یونیورسٹی کیمپس میں منشیات کی لت جس تیزی سے پھیل رہی ہے ایسے میں ہمارے نوجوان طلباءکا جنہیں قوم کا مستقبل کہا جاتا ہے اللہ ہی نگہبان ہو‘ جہاں پر مفادات اور حقوق کے حصول کو فرائض پر ترجیح حاصل ہو وہاں کا ماحول یقینا اس سے مختلف نہیں ہو سکتا جس بربادی سے اس وقت دوچار ہے مگر خود احتسابی اور محاسبہ کوئی نہیں جامعات کی درجہ بندی کی شرائط میں یہ بالکل بھی شامل نہیں کہ آپ کے ہاں کس کس نوعیت کی ہلڑ بازی کس حد تک ہے اور قواعد و ضوابط کی دھجیاں کس شان سے اڑائی جارہی ہیں؟ نہ جانے خود احتسابی‘ جوابدہی اور اپنائیت یا اونر آپ کا احساس کب جاگے گا؟۔