ہائی ٹیک، صنئتی ترقی 

پاکستان کی ترقیاتی حکمت عملی بنیادی طور پر ”ہائی ٹیک مصنوعات“ کی تیاری اور برآمدات پر مرکوز ہونی چاہئے۔ اسی میں معاشی نجات ہے۔ ”علم“ آج عالمی معیشتوں کی پائیدار اور مساوی سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے طاقت کا ذریعہ ہے۔ ہمیں علم کی اہمیت کا احساس کرنا ہوگا اور علم کی بنیاد پر تشکیل پانے والے نئے عالمی نظام کے تقاضوں پر پورا اترنے کیلئے اپنی ترقیاتی ترجیحات کو ازسرنو مرتب کرتے ہوئے تبدیل کرنا ہوگا۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی جانب سے کی جانے والی غلطیوں کو دہرایا نہ جائے اور ایسی پالیسیاں وضع کی جائیں جن سے پاکستان کو سنگاپور‘ کوریا‘ ویت نام یا عوامی جمہوریہ چین کی طرز پر ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت کی طرف منتقل ہو۔ ہماری دور اندیشی یہ ہے کہ ترقی کیلئے قرض لئے جاتے ہیں اور پھر قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید قرضے لیتے ہیں اور اس طرح قرض بڑھنے کے سوا کوئی دوسرا نتیجہ حاصل نہیں ہو رہا۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو ایٹمی ملک ’کٹھ پتلی‘ بن جائے گا اور غیر ملکی آقاو¿ں کے اشاروں پر قومی ترجیحات تیار ہوں گی‘گیس اور بجلی کے نرخوں سے متعلق عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی پالیسیوں نے صنعتی ترقی کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اور اس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بے روزگاری پیدا ہوئی ہے‘ جس سے قومی سطح پر بہت بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ بائیس سے چوبیس فیصد کی بلند شرح سود کے ساتھ ساتھ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ در اضافہ قومی صنعتوں کیلئے جھٹکا ہے اور اس کے نتیجے میں ہزاروں صنعتیں مستقل طور پر بند ہو گئی ہیں‘ جس سے بڑے پیمانے پر غربت اور بیروزگاری عام ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ برآمدات کو فروغ دینے کیلئے برآمدی صنعتی یونٹوں کیلئے بجلی اور گیس کے نرخوں میں کم از کم 80 فیصد کمی کی جائے تاکہ انہیں بین الاقوامی سطح پر مسابقتی بنایا جاسکے۔ بینکوں سے برآمد کنندگان کو زیادہ سے زیادہ پانچ فیصد شرح سود پر قرضے دیئے جائیں تاکہ صنعتی ترقی یقینی ہو۔ صنعتی ترقی ہو گی تو معیشت وسیع ہو گی اور معیشت کے وسیع ہونے کا مطلب روزگار کے مواقعوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ملازمتیں‘ نوکریاں اور مزید ملازمتیں‘ ہماری وزارت منصوبہ بندی کو انہی نکات پر توجہ دینی چاہئے ‘غربت اور بدعنوانی کے اس گھناو¿نے چکر سے نکلنے اور آگے بڑھنے کا واحد راستہ ”صنعتی ترقی“ ہے‘ خاص طور پر ایسی صنعتی ترقی جس کا مقصد ہائی ٹیک ویلیو ایڈڈ برآمدات ہوں۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے ہمیں تعلیم‘ سائنس و ٹیکنالوجی اور جدت کو اعلیٰ ترین قومی ترجیح دینا ہوگی اور اسی طرح کی پالیسیوں پر عمل درآمد کرنا ہوگا جن پر ہمارے قرب و جوار میں ایشیائی اور دیگر ممالک کر رہے ہیں۔ ہمیں آئی ایم ایف‘ چین اور دیگر ڈونرز سے جو فنڈز مل رہے ہیں انہیں الیکٹرانکس‘ فارماسیوٹیکل‘ انجینئرنگ گڈز‘ آئی ٹی مصنوعات‘ آٹوموبائلز‘ دفاعیسازوسامان وغیرہ جیسی مصنوعات کی تیاری اور برآمدات میں پاکستان کی مدد کرنے کی ہدایت کی جانی چاہئے۔ ہمیں سال دوہزارتیس تک اپنی برآمدات میں پچاس ارب ڈالر اور سال دوہزارچالیس تک ایک سو ارب ڈالر تک پہنچنا ہوگا تاکہ ہم موجودہ معاشی بدحالی سے نکل سکیں۔ یہ کام ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے ایک حصے کے طور پر چینی فرموں کے ساتھ مشترکہ مینوفیکچرنگ کرکے باآسانی کیا جاسکتا ہے چینی صنعت کو اپنے کچھ آپریشنز پاکستان منتقل کرنے کی طرف راغب کرنے میں مدد ملے گی۔آئیے ہم جنوبی کوریا کی مثال پر غور کرتے ہیں جس نے سیمی کنڈکٹر صنعت کی ترقی کر کے معاشی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ جنوبی کوریا نے سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی سے متعلق بنیادی علوم میں سرمایہ کاری کی‘یہ سرمایہ کاری بشمول سائنس‘ ڈیوائس فزکس اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں کی گئی۔ جامعات اور تحقیقی اداروں کی مالی معاونت کی گئی اور ان کی ہاں ہونے والی تحقیق کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ سیمی کنڈکٹر انجینئرنگ اور متعلقہ شعبوں میں خصوصی پروگرام تیار کریں تاکہ صنعت کو باصلاحیت افراد کی مستقل فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ جنوبی کوریا نے تعاون اور معلومات کے تبادلے کو فروغ دیا اور ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت سرکاری و تحقیقی اداروں اور نجی کارپوریشنوں کے مابین اسٹریٹجک شراکت داری کو فروغ دیا گیا۔ ایک اور عمدہ مثال برازیل کی ہے۔ جہاں ”بائیو فیول پروگرام“ شروع کیا گیا اس سے گنے کی ایتھنول صنعت‘ قابل تجدید توانائی کی ترقی‘ زراعت میں جدت اور پائیدار اقتصادی ترقی حاصل ہوئی۔ برازیل نے گنے کی کاشت کی تکنیک‘ ایتھنول کی پیداوار اور بائیو فیول ٹیکنالوجیز کو بہتر بنانے کیلئے تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کی جس سے فلیکس فیول گاڑیاںمتعارف ہوئیں جو پٹرول‘ ایتھنول یا دونوں پر چل سکتی ہیں‘(مضمون نگار سابق وفاقی وزیر رہے ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطاءالرحمن۔ ترجمہ ابوالحسن امام)