قابل تجدید بجلی : انقلابی تصور

پاکستان تین سے پانچ سال میں فی کس بجلی کی پیداوار دوگنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمت مستحکم اور کم بھی کی جا سکتی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں بجلی کی تقسیم کا قومی نظام صارفین کی طرف سے بلوں کی ادائیگی کے ذریعے چلتا ہے اور بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس سے لے کر ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لائنوں تک ہر توسیع و کام کاج کےلئے صارفین ہی مالی وسائل فراہم کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک عرصے سے اِس بات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ بجلی کی تقسیم کے نظام اور اِس سہولت کے بنیادی ڈھانچے کی توسیع کو صارفین کی قوت خرید کے مطابق کیا جانا چاہئے‘ بجلی پیدا کرنےوالے کسی بھی اثاثے کےلئے دو بنیادی اخراجات ہوتے ہیں۔ ایک اثاثہ یعنی بجلی کی صلاحیت (واٹ) کی صورت‘ جس میں اضافے کےلئے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاور پلانٹ کے قیام کے لئے ادائیگیاں صرف اندرون ملک تک محدود نہیں ہوتیں اور اس بات سے قطع نظر کہ پاور پلانٹ سے حاصل ہونےوالی بجلی استعمال کی گئی ہے یا نہیں لیکن کیپسٹی چارجز کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ اسکے بعد توانائی کی فراہمی کےلئے پلانٹ کے استعمال کی آپریشنل لاگت کی ادائیگی ہوتی ہے۔ پاور پلانٹ کی فنانسنگ میں اہم بات اِس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ صارفین آپریشنل اخراجات برداشت کرسکیں۔ اگر صارف اس لاگت کو برداشت نہیں کر سکتے تو اِس سے قومی خزانے پر بوجھ بڑھتا ہے۔ تمام تھرمل پاور پلانٹس بھاپ ٹربائن چلانے کےلئے ایندھن کے طور پر کوئلہ‘ گیس یا یورینیم اور میٹھا پانی چاہئے ہوتا ہے۔ پاکستان میں بجلی کی موجودہ پیداوار کا ساٹھ فیصد ایسے تھرمل پاور پلانٹس سے حاصل ہوتا ہے جس کےلئے ایندھن کی قیمت بنیادی آپریشنل لاگت ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص طویل مدت کےلئے اِن ایندھنوں کی خریداری کی قیمت کو مستقل نہیں رکھ سکتا اور ایسا کرنا بھی ناممکن ہوتا ہے کہ طویل عرصے تک ایک ہی قیمت پر ایندھن حاصل کیا جائے۔ ایندھن کی مارکیٹ پر عالمی حالات اثر انداز ہوتے ہیں جنکی وجہ سے ایندھن کی قیمتیں غیر متوقع اور غیرمستحکم ہوتی رہتی ہیں لیکن اِس کے برعکس‘ شمسی توانائی‘ ہوا اور ہائیڈرو (پن بجلی) قدرتی طور پر قابل تجدید توانائی کے وسائل ہیں اور ان سے حاصل ہونےوالی بجلی کی لاگت طویل عرصے تک ایک جیسی رہتی ہے۔ دیگر ایندھنوں کے مقابلے ہائیڈرو انرجی تھوڑا سا زیادہ پیچیدہ ہے‘ خاص طور پر آبی ذخائر کی تعمیر آسان نہیں ہوتی کیونکہ دریاو¿ں اور زیر زمین پانی کا رخ موڑنا آسان نہیں ہوتا۔ آبی وسائل کی دیگر مسابقتی ضروریات بھی ہوتی ہیں تاہم اِن سے زرعی پیداوار اور غذائی تحفظ کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ہائیڈرو ذرائع باآسانی آب و ہوا کی تبدیلی سے متاثر ہوتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دریاو¿ں میں پانی کم ہو سکتا ہے کیونکہ ’گلوبل وارمنگ‘ بڑھ رہی ہے جسکی وجہ سے خشک سالی کا عرصہ بھی طویل ہو رہا ہے لیکن شمسی اور ہوا سے حاصل ہونےوالی توانائی کے ذرائع میں ایسی کوئی بھی رکاوٹیں نہیں ہوتیں۔ یہ خشک سالی سے پاک‘ ایندھن سے پاک بجلی کے ذرائع ہوتے ہیں اُور اِن کےلئے آپریشنل ایندھن کی لاگت بھی صفر ہوتی ہے یعنی ایندھن کی قیمتوں میں اتار چڑھاو¿ ہو بھی تو اِس کا اثر صفر ہوتا ہے۔ شمسی یا ہوا سے بجلی پیدا کرنےوالے پلانٹ کے قیام اور اِنہیں چلانے کی کل لاگت اسکی ابتدائی صلاحیت کی ادائیگی ہوتی ہے۔ بجلی گھروں کے لئے بجلی کی قیمت مستحکم رہتی ہے اور شمسی پاور پلانٹ کی زندگی بھی زیادہ ہوتی ہے‘نجی بجلی گھروں کی پیداواری صلاحیت کے مطابق ادائیگی کرنا پڑتی ہے یعنی کیپسٹی چارجز کسی بھی تھرمل پاور پلانٹس کی جانب سے مسئلہ ہوتا ہے لیکن شمسی اور ہوا کی توانائی سے بننے والے پاور پلانٹس میں ایسا نہیں ہوتا۔ اگر آپریشنل اِیندھن کی لاگت بہت زیادہ ہو بھی جائے تو اِس سے غیر فعال پاور پلانٹس کی صلاحیت کے مطابق ادائیگی کرنا پڑتی ہے جبکہ یہ مسئلہ شمسی اور ہوا کی توانائی کےساتھ نہیں ہوتا‘ گزشتہ سال عالمی سطح پر بجلی پیدا کرنےوالے نئے منصوبوں کا اِضافہ ہوا جس میں زیادہ تر شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے بجلی گھر تھے‘ ترجیحات میں یہ تبدیلی آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے نہیں بلکہ معاشیات کی وجہ سے ہے‘ پروفیشنل پروجیکٹ ڈویلپرز جانتے ہیں کہ شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنےوالے پلانٹس کا انتخاب بہتر ہے اور اِن سے کاربن اخراج بھی کم ہوتا ہے‘گزشتہ سال جرمنی نے تقریباً دوسو ٹی ڈبلیو ایچ (ایک ٹی ڈبلیو ایچ مساوی ہوتا ہے ایک ارب کلو واٹ) بجلی پیدا کی‘ جو اسکے ہاں بجلی کی کل کھپت کا تقریبا نصف ہے اور یہ نصف صرف شمسی اور ہوا سے حاصل ہوا ہے۔ تمام ذرائع سے پاکستان میں بجلی کی کل پیداوار تقریباؑ ایک سو چالیس کلو واٹ (فی کس چھ سو کلو واٹ بمقابلہ بھارت کےلئے تیرہ سو کلو واٹ) ہے۔ پاکستان کے پاس شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے قدرتی وسائل جرمنی اُور دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ شمسی اور ہوا سے چلنے والے پاور پلانٹس کی تنصیب اور اِنہیں چلانے کی کل لاگت اب بھی تھرمل پاور پلانٹس کی آپریشنل ایندھن کی لاگت سے کم ہے۔ اسکے علاو¿ہ یہ حکمت عملی پانی کی قلت کے بڑھتے ہوئے بحران کو بھی کم کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عمر ایس چیمہ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)


‘قابل تجدید توانائی میں اضافے کے خلاف ایک اعتراض یہ سننے میں آتا ہے کہ اس سے بجلی کے گرڈ نیٹ ورک پر منفی اثر پڑتا ہے جبکہ اس حقیقت اِس کے برعکس ہے اور قابل تجدید توانائی گرڈ سپورٹ صلاحیتوں کا زیادہ تقسیم شدہ نیٹ ورک فراہم کرکے گرڈ کے استحکام کو بہتر بناسکتی ہے۔ اعتراض کرنے والوں سے پوچھا جائے کہ کیا قابل تجدید توانائی پر انحصار کرنے سے جرمنی جیسے ممالک کے گرڈ زیادہ غیر مستحکم ہوئے ہیں؟ اگر نہیں تو حقیقت برعکس ہے۔ جنوبی افریقہ جیسے ممالک جو اپنی بنیادی بجلی کےلئے کوئلے پر انحصار کرتے ہیں اور وہاں بجلی کی بندش اور لوڈ شیڈنگ معمول بن چکی ہے‘ حکومت کو چاہئے کہ آئی ایم ایف اور بین الاقوامی عطیہ دہندگان کے ساتھ مذاکرات میں قابل تجدید بجلی کے ذرائع کی طرف منتقلی کے منصوبے پیش کرے اور یہ حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ توانائی کے شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری راغب کرنے کےلئے‘ طویل مدتی اور شفافیت پر مبنی پالیسیاں ہونا بھی ضروری ہیں‘حکومت کو چاہئے کہ ”کمیونٹی سولر اسکیم“ شروع کرے اور اِسے قابل تجدید بجلی کی تمام اقسام تک بڑھانا چاہئے‘یہ زیادہ سستی اور پائیدار بجلی کے حصول کا ذریعہ ہے‘ پاکستان اپنی معیشت کو تبدیل کرنے کےلئے قابل تجدید بجلی کا استعمال کرکے ’مثال‘ قائم کرسکتا ہے‘قابل تجدید بجلی ہر قسم کی پائیدار‘ خود کفیل توانائی کی کھپت کی راہ ہموار کرےگی۔ قومی سلامتی کےلئے ضروری ہے کہ توانائی کی آزاد اور ایک جدید معیشت تشکیل دی جائے۔ ایک ایسی معیشت جسے روکنے میں کوئی مالی یا تکنیکی رکاوٹ حائل نہیں ہو۔ فی الوقت قابل تجدید بجلی کے انقلاب کی راہ میں حائل واحد رکاوٹ فیصلہ سازوں کا تخیل‘ عزم اور ترجیحات ہیں۔