اسرائیلی حملے کا انتظار

 تیرہ اپریل کو اسرائیل پر ایران کے فضائی حملے کے بعداب دنیا بھر میں اسرائیل کے جوابی حملے کا انتطار کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل اگر چاہے تو خاموش بھی رہ سکتا ہے اوریا پھر ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرکے اپنے کھوئے ہوئے رعب و دبدبے کو برقرار رکھنے کی کوشش بھی کر سکتا ہے۔ خاموشی کی توقع اس لئے نہیں کی جاسکتی کہ اسرائیل کے چیف آف آرمی سٹاف Lt.General Herzi Halevi نے پیر کے دن اپنے فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی سرزمین پر سینکڑوں بیلسٹک‘ کروز میزائل اور ڈرون طیاروں کے حملے کا جواب دیا جائیگا‘ یہ جواب کیا ہو گا اس کا فیصلہ وزیر اعظم بنجا من نیتن یاہو کی جنگی کابینہ منگل کی شام تک نہیں کر سکی تھی۔ یہ فیصلہ مشکل بھی ہے اور آسان بھی۔ مشکل اس لئے کہ یورپی اور عرب ممالک کے جس اتحاد نے امریکہ کی سربراہی میں ایران کے 100 بیلسٹک‘30 کروز میزائل اور 170 ڈرون طیاروں کو ساکت کیا‘ نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل اتنے بڑے حملے میں کسی قسم کے نقصان کے نہ ہونے کو اپنی فتح سمجھ کر مزید کاروائی سے گریز کرے۔ مگر بنجا من نیتن یاہو بیس برس سے ایران پر کسی بڑے حملے کے لئے موقع کی تلاش میں تھے اور ان کی اتحادی حکومت کے انتہا پسند اراکین اس وقت ان پر ایک بھرپور فضائی حملے کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ تیرہ اپریل کے ایرانی حملے کو کامیاب قرار دیا جائے یا ناکام‘ ہر دو صورتوں میں مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک جوہری تبدیلی آ چکی ہے۔ کل تک ایران اور اسرائیل میں جس قسم کی جھڑپیں ہو رہی تھیں وہ کسی بڑی علاقائی جنگ کا پیش خیمہ نہ بن سکتی تھیں۔ اسرائیل کبھی ایران کی پراکسی تنظیموں‘  جن میں لبنان کی حزب اللہ اور یمن کے حوثی شامل ہیں‘ پر میزائل حملے کر تا تھا اور کبھی ایران کی سرزمین پر حملہ کرکے اس کے سائنسدان ہلاک کر تا تھا۔ اس کے جواب میں ایران اپنی غیر ملکی تنظیموں کے ذریعے اسرائیل کے مفادات کو نقصان پہنچا کر حساب برابر کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ یہ سلسلہ دو عشروں سے جاری تھامگر یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی کونسلیٹ پر اسرائیل کا فضائی حملہ ایک گیم چینجر تھا۔ اس حملے میں پاسداران انقلاب کے گیارہ سینئر ممبر ہلاک ہوئے تھے‘ ان میں دو جرنیل بھی شامل تھے۔ اس حملے کے فوراً بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے جوابی حملے کا عندیہ دے دیا تھا۔چودہ اپریل کو ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہ نے سکیورٹی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ اب ختم ہو چکا ہے لیکن اسرائیل نے اگر مزید جارحیت کی تو اسے منہ توڑ جواب دیا جائیگا۔ ایران کے اس واضح پیغام نے مغربی ممالک کے دارلخلافوں میں ایک مرتبہ پھر خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ مغربی ممالک کو سمجھ آ گئی ہے کہ اسرائیل کے کسی بھی اشتعال انگیز حملے کے جواب میں ایران اپنی پراکسی تنظیموں سے جوابی حملے کرانے کے بجائے اب براہ راست اسرائیل کی سرزمین پر آتش و آہن برسائے گا۔ ایران نے اگر تیرہ اپریل کو Negev Desert کے آس پاس حملے کر کے اسرائیل کو کسی قسم کا جانی یا مالی نقصان نہیں پہنچایا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ایسا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس نے اسرائیل کے بڑے شہروں کے مضافات میں بے ضرر حملے کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے جدید ترین راڈار اور ایئر ڈیفنس سسٹم میں شگاف ڈال سکتا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی Aerospace Industries کا ایجاد کردہ Iron Dome ڈیفنس سسٹم دو چار سو میزائلوں کو تو روک سکتا ہے مگر تہران کے چھ سات سو ڈرون‘ بیلسٹک اور کروز میزائلوں میں سے درجن بھر بھی شہری آبادی تک پہنچ گئے تو کئی سو اسرائیلی ہلاک ہو سکتے ہیں۔ یہ اب طے ہو چکا کہ ایران پراکسی تنظیموں کی چوکھٹ یا Threshold عبور کر کے اسرائیل پر براہ راست حملوں کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ دونوں ممالک میں چھوٹی موٹی جھڑپیں اب بھی جاری رہیں گی مگر اب کسی بھی وقت کسی بڑی علاقائی جنگ کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک ایسا مشرق وسطیٰ ہے جسے سنبھالنا امریکہ کے لئے پہلے سے زیادہ مشکل  ہو گیا ہے۔ اور یہ ایک ایسا مشرق وسطیٰ بھی ہے جس میں اسرائیل کی Deterrence Supremacy یعنی مزاحمت کی برتری والی صورتحال ختم ہو چکی ہے۔ ایرانی قیادت کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ اب منہ موڑ کر معمولی رد عمل ظاہر کرنے کے بجائے بھرپور جواب دے گی۔اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ اسرائیل اگر ایران پر ایک بڑا جوابی حملہ کرتا ہے تو کیا امریکہ اس کا ساتھ دے گا۔ اس کا جواب نفی میں اسلئے ہے کہ اس وقت ڈیموکریٹک پارٹی میں بائیں بازو کا دھڑا یہ کہہ رہا ہے کہ وہ اب کسی بھی صورت اسرائیل کے لئے ایک نئی جنگ نہیں لڑے گا۔ اس نوجوان طبقے میں اسرائیل کے خلاف اس قدر غم و غصہ پایا جاتا ہے کہ صدر بائیڈن ایران سے الجھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ حقیقت ایک دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل اپنی تمام تر ٹیکنولاجیکل برتری کے باوجود یکہ و تنہا ایران کے ساتھ ایک طویل جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اسے یاتو وہی آسان راستہ اختیار کرنا ہو گا جو 1991ء  میں اسرائیل کے عقابی وزیر اعظم یزہاک شمیرنے کیا تھا۔ اس نے صدام حسین کے سکڈ میزائلوں کے حملے کے جواب میں خاموشی اختیار کر کے امریکہ کو عراق پر حملہ کرنے کا موقع فراہم کیا تھا۔ اب ایسا نہیں ہو سکتا۔ 1991 ء کے عراق اور 2024ء کے ایران میں بہت فرق ہے۔ اب اسرائیل کو ایران کی سرزمین پر ایک بے ضرر حملہ کر نے پر اکتفا کرنا ہو گا۔ بصورت دیگر وہ غزہ میں حماس کا مقابلہ کر سکے گا اور نہ ہی ایران اور حزب اللہ سے کئی محاذوں پر پنجہ آزمائی کرسکے گا۔