دولت کی تقسیم

برازیل کے وزیرخزانہ فرنانڈونے خبردار کیا ہے کہ دولت کی عالمی تقسیم نے دنیا کوماحولیاتی تباہی سے دوچار کیا ہے اگریہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھتا رہا تو دنیا کا مستقبل تاریک ہوجائے گا برازیل کے شہر ساوپاولو(Sao Paulo) میں گروپ 20(G-20)کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اعدادوشمار کی مدد سے طاقتور ملکوں کے نمائندوں کو بتایا کہ اس وقت دنیا کی آبادی کا ایک فیصد امیر طبقہ دنیا کے45فیصد ارضی،سمندری اور معدنی وسائل پرقابض ہے اور اپنے کارخانوں کے ذریعے دنیا کی دوتہائی غریب آبادی کے برابر کاربن فُٹ پرنٹ پیدا کررہا ہے انہوں نے کہا کہ کارپوریٹ سیکٹر یعنی کاروباری طبقہ نے قومی حکومتوں سے کئی گنا زیادہ طاقت حاصل کرلی ہے اور اس شعبے نے ٹیکس سے بچنے کے نت نئے حربے تلاش کرلئے ہیں انہوں نے اگرچہ نام نہیں لیا تاہم بین السطور میں آف شور کمپنی،خیراتی مالیات، فاؤنڈیشن،ٹرسٹ وغیرہ کی طرف اشارہ کیا۔برازیل کے وزیرخزانہ نے کہا کہ امیروں پرٹیکس لگانے میں برازیل تمام ملکوں سے آگے ہے‘برازیل اس سال جی20-کی سربراہی کررہا ہے یہ جنوبی امریکہ کاملک ہے‘ رقبے کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پہ ہے جبکہ آبادی کے لحاظ سے اس کا ساتواں نمبرہے،رقبے میں روس‘ کینیڈا‘چین اورامریکہ کے بعد برازیل کا نمبر آتا ہے جبکہ آبادی کے لحاظ سے چین‘بھارت‘ امریکہ‘ انڈونیشیا‘پاکستان اور نائیجریا برازیل سے آگے ہیں اس وقت گروپ20میں برازیل انیسواں ملک ہے بیسویں نمبر پہ یورپی یونین کانام آتا ہے جبکہ افریقی یونین کواکیسویں نمبرپہ رکھا گیاہے شاید اگلے دوبرسوں میں گروپ کانام بھی جی 21- یا جی 22ہوجائے گا عالمی سیاست اور سفارت کاری میں برازیل کو بڑی اہمیت حاصل ہے اگرسلامتی کونسل کے مستقل ممبروں کی تعداد میں اضافہ کی 10سال پرانی تجویزمان لی گئی توبھارت اور جرمنی سے آگے برازیل کانام آئیگا اس وجہ سے بھارت نے لابنگ چھوڑدی ہے،جرمنی نے بھی اپنی لابنگ ڈھیلی رکھی ہوئی ہے۔اس وقت دنیابھر میں ماحولیات کوبچانے کی جوتحریک چل رہی ہے اس کا آغاز 1972ء میں برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو(Rio-D-Genero)سے ہوا تھا 1982ء میں اسی شہرمیں ارتھ سمٹ منعقد ہوئی‘ اب تک عالمی ماحولیاتی اداروں اورتنظیموں کے جو اجلاس منعقد ہوتے ہیں ان کوریوپَلس (Rio+)کانام دیاجاتاہے۔ساوپاؤلو میں جی20-کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکوں کے سربراہوں کے اجلاس کے موقع پردنیامیں دولت کی تقسیم کے حوالے سے جومعلومات ذرائع ابلاغ کوجاری کی گئیں ان میں کہاگیا ہے کہ گذشتہ نصف صدی کے اندر دنیا کے چند بڑے خاندانوں میں دولت کے ارتکاز کی شرح ایک فیصد سے بڑھ کر 45فیصد تک پہنچ گئی جبکہ مختلف حیلوں اور بہانوں سے ٹیکس بچانے کے حربوں کی وجہ سے ان کی آمدن پرلگنے والے ٹیکس میں ایک تہائی کمی آگئی ہے اعدادوشمار کی رو سے بتایا گیا ہے کہ گذشتہ نصف صدی کے اندر جی20-کے ایک فیصد طبقے کی آمدنی 18ٹریلین ڈالر ہوچکی ہے دنیا بھرمیں دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم اور چند خاندانوں میں دولت کے ارتکاز کی وجہ سے معاشرتی،سیاسی اور سفارتی ناانصافیوں کے کئی دروازے کھل رہے ہیں اکسفام نامی بین الاقوامی تنظیم کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کی7ارب آبادی میں 7کروڑ افراد 6لاکھ ڈالر کی کار، 3 کروڑ ڈالرکے جزیرے اور 2ارب ڈالر مالیت کے جہاز خریدتے ہیں جبکہ دنیامیں 4 ارب 20کروڑ کی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذارنے پرمجبور ہے ان کے پاس دووقت کی روٹی خریدنے کی صلاحیت نہیں ہے‘ دولت کے ارتکاز کی وجہ سے درمیانی طبقہ سکڑکر محض 2 ارب70کروڑ رہ گیا ہے،نصف صدی قبل کے اعداد وشمار موجودہ اعداد وشمار کے برعکس تھے جب درمیانی طبقہ کی آبادی غریب طبقے سے دگنی تھی اور یہ عالمی سطح پرخوشحالی کی نشانی سمجھی جاتی تھی،ساؤ پاولو کے اندر جی20-کے نمائندوں کی بیٹھک میں میزبان ملک برازیل کے وزیرخزانہ کا انتباہ دنیا میں نئے مالیاتی نظام کے قیام کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے اس کا اثراقوام متحدہ کے ممبر ملکوں اور قومی حکومتوں کی مالیاتی پالیسیوں پر بھی پڑسکتا ہے۔