آبی جارحیت : پانی پر سیاست

بھارت پانی پر سیاست کر رہا ہے اور اُس نے ایک عرصے سے پاکستان کی طرف بہاو¿ رکھنے والے دریاو¿ں کا پانی جزوی یا مکمل طور پر روک دیا ہے۔ یہ خبر انتہائی افسوسناک اور حیران کن بھی ہے۔ لاہور اور اِس کے آس پاس کے دیگر شہروں کے لئے دریائے راوی خاص اہمیت کا حامل تھا جس کا پانی روکنا ’سزائے موت‘ سنانے جیسا ہے۔ حال ہی میں دریائے راوی کے لئے آنے والے پانی پر بھارت نے شاہ پور کنڈی ڈیم بنایا اور 1150 کیوسک پانی روکنے کی اجازت دی گئی یہ پانی ماضی میں پاکستان کو مل رہا تھا۔ اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ڈیم نے مقبوضہ جموں کے سانبا اور کٹھوعہ اضلاع میں تقریباً بتیس ہزار ایکڑ زمین کو سیراب کرنے کے لئے ساڑھے گیارہ سو کیوسک پانی کا بھی راستہ تبدیل کیا ہے اور کھلم کھلا آبی جارحیت ہے۔بھارت کے سابق وزیر اعظم پی وی نرسمہا راو¿ نے 1995ءمیں شاہ پور کنڈی ڈیم منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے چھبیس ستمبر کو واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ ”خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے“ اور ان کی وزارت کو راوی سے پاکستان کو پانی نہ بھیجنے کا حکم دیا۔ پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر کو بھارت کے اس اقدام کی عالمی سطح پر مخالفت کرنی چاہئے۔ پاک بھارت سرحد کے ساتھ دریاو¿ں میں بہاو¿ کی پیمائش کرنے والے گیج سے پتہ چلتا ہے کہ سال دوہزار سے دوہزارتیئس میں راوی میں اوسط سالانہ بہاو¿ ایک اعشاریہ ایک سے دو اعشاریہ دو ملین ایکڑ فٹ تھا تاہم یہ بہاو¿ بھی لاہور اور آس پاس کے دیگر شہروں میں زیر زمین پانی کو بھرنے کے لئے ناکافی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق لاہور کے زیرزمین پانی کے ذخیرے (ایکویفر) کو ریچارج کرنے میں دریائے راوی کا حصہ 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کی مرتب کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لاہور کے آبی ذخائر کو دوبارہ بھرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے دریائے راوی۔ بھارت کی آبی جارحیت پر خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ لاہور میں پانی کی سطح پہلے ہی تقریباً ڈھائی سے تین فٹ سالانہ کی شرح سے کم ہو رہی ہے‘ اگر راوی میں پانی کی فراہمی مکمل طور پر منقطع کر دی گئی تو اِس سے لاہور کا زیرزمین پانی تقریباً ختم ہوجائے گا۔ بھارت میں انڈین نیشنل گرین ٹریبونل کا فیصلہ جو نو اگست، دوہزارسترہ کو دیا گیا تھا کے مطابق بھارت کے تمام دریاو¿ں میں پانی کی اوسط بیس سے اکیاون فیصد رکھنی چاہئے تاکہ قدرت کی جانب سے دریاو¿ں کے لئے بنایا گیا ماحولیاتی بہاو¿ متاثر نہ ہو۔ پانی سے متعلق بین الاقوامی قوانین بھی موجود ہیں جن میں بنیادی ماحولیاتی اصولوں اور طریقوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ بھارت کی آبی جارحیت کا مسئلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے اور دنیا کو یاد دلایا جائے کہ اقوام متحدہ کے 68ویں اجلاس میں بھارت نے جو وعدے کئے تھے اُن کے برخلاف اقدامات کر رہا ہے۔ یہ تحریری بیان‘ جس کا تعلق ’سرحد پار آبی ذخائر کے قانون‘ سے ہے‘ صرف بھارت کو گھٹنے ٹیکنے کے لئے کافی ہے تاہم اِس کے لئے منصوبہ بندی کرنا پڑے گی۔سندھ طاس معاہدہ قابل عمل دستاویز ہے‘ جسے بھارت ناقابل عمل بنانا چاہتا ہے۔ پاکستان کو اِس بات پر خصوصاً زور دینا چاہئے کہ سندھ طاس معاہدے میں کسی بھی قسم کی ترمیم نہ کی جائے کیونکہ مذکورہ معاہدے میں کسی بھی قسم کی ترمیم کو پاکستان کی توانائی‘ خوراک اور پانی کی سلامتی کے لئے سزائے موت کے طور پر دیکھا جائے گا۔ جب بھارت میں ڈیم کی تعمیر جاری تھی تو کیا اُس وقت اِس اقدام پر غور اور عالمی سطح پر معاملے کو اُٹھا کر بھارت پر دباو¿ نہیں ڈالنا چاہئے تھا؟ حقیقت ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی شرائط کے تحت دریائے راوی کے پانی پر بھارت کا بھی حق ہے لیکن اس معاہدے پر بہت پہلے دستخط کئے گئے جب ماحولیاتی بہاو¿ کے تصور پر غور نہیں کیا گیا تھا۔ سال دوہزارتیرہ میں سندھ طاس کشن گنگا ثالثی (پاکستان بمقابلہ بھارت) میں ثالثی عدالت نے بھی اِس ضمن میں زمینی حقائق کو ریکارڈ کا حصہ بنایا ہے۔ عدالت نے 1960ءکے سندھ طاس معاہدے کی ارتقائی تشریح کو اپنانے کے بعد بھارت کو حکم دیا کہ وہ اپنے ڈیم کے ذریعے دریائے نیلم میں کم از کم ماحولیاتی بہاو¿ جاری رکھے جس میں تسلیم کیا گیا تھا کہ سرحد پار ماحولیاتی نقصان کو روکنے کی ذمہ داری عام بین الاقوامی قانون کا جزو ہے۔ توقع تھی کہ کشن گنگا ثالثی کے بعد حکومت پاکستان دریائے راوی کے ماحولیاتی نظام پر مثبت اثرات مرتب کرنے کے لئے کم سے کم ماحولیاتی پانی کے بہاو¿ کا معاملہ عالمی سطح پر اُٹھائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔قانون کی حکمرانی کے لحاظ سے پاکستان 142 ممالک میں 130ویں نمبر پر ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کبھی بھی بین الاقوامی عدالتوں کے لئے ایک بھی وکیل پیش نہیں کر سکا۔ بصورت دیگر، بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں تین مقدمات ہنگری بمقابلہ سلوواکیا (1997ئ)‘ ارجنٹائن بمقابلہ یوراگوئے (2010ئ) اور نکاراگوا بمقابلہ کوسٹا ریکا (2015ئ) کے فیصلے موجود ہیں جنہیں آئی سی جے نے بین السرحدی ماحولیاتی نقصان کو روکنے کے اصول پر سنایا تھا اور اگر اِنہی تین مقدمات کے فیصلوں کو بنیاد بنا کر عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا جائے تو بھارت کو پاکستان کے خلاف مزید آبی جارحیت سے روکا جا سکتا ہے۔ بین الاقوامی قانون‘ آئی سی جے‘ دیگر عدالتوں کے فیصلے اور کشن گنگا ثالثی کی قائم کردہ مثالیں پاکستان میں دریائے راوی کے قدرتی بہاو¿ کو بحال کرنے‘ میٹھے پانی کی فراہمی‘ دریائی ماحولیاتی نظام کی بحالی اور انسانی زندگی کی حفاظت کے لئے کافی ہے جس پر پاکستان کے دریاو¿ں کے پانی کا انحصار ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر انجنیئر ارشد عباسی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)