امریکی  جامعات‘  حکومت  اور میڈیا

 کئی برس پہلے فلسطین کے بارے میں لکھی ہوئی ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں ایک فلسطینی دانشور نے کہا تھا کہ فلسطین میں جب کبھی تبدیلی آئی اس کا آغاز امریکہ سے ہو گا۔ اس وقت مجھے یہ بات اس لئے سمجھ نہیں آئی تھی کہ امریکہ ان دنوں یہودیوں کا ایک نا قابل تسخیر قلعہ تھااور یہ خوش فہمی بھی ذہن پر سوار تھی کہ ستاون مسلم ممالک اتنے نا تواں تو نہیں ہو سکتے کہ اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے لئے ایک آزاد ریاست بھی حاصل نہ کر سکیں۔ چھ برس پہلے جب ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ابراہام معاہدے کے تحت چندعرب ریاستوں نے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کئے تو پتہ چلا کہ عرب حکومتیں تو فلسطینی عوام کے ساتھ ظاہری ہمدردی کی بھی روا دار نہیں ہیں۔ اب گذشتہ سات ماہ سے غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے بعد دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج کے تناظر میں فلسطین کے مسئلے کے دو ریاستی حل کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کے نتیجے میں پینتیس ہزار سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کے اس ہولناک قتل عام کے بعد بھی اسرائیل کے وحشیانہ طرز عمل میں کسی خاص تبدیلی کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ وہ اپنے امریکی سرپرستوں کے سمجھانے کے باوجود مصر کی سرحد پر واقع رفاح جہاں اس وقت دس لاکھ سے زیادہ لٹے پٹے فلسطینی پناہ لئے ہوئے ہیں‘پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ رفاح کیونکہ حماس کی آخری پناہ گاہ ہے اور اس جگہ اس نے اپنے بقاء کی جنگ لڑنی ہے‘ اس لئے اس شہر میں اسرائیلی حملے کے نتیجے میں خوفناک خونریزی بعید از امکان نہیں ہے۔اسرائیل کی اس ہٹ دھرمی کے خلاف امریکی طالب علم یوں تو گذشتہ کئی ماہ سے مسلسل مظاہرے کر رہے ہیں مگر سترہ اپریل کو اس وقت اس احتجاج کی شدت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا جب نیویارک کی مشہور کولمبیا یونیورسٹی میں سینکڑوں طالب علموں نے خیمہ بستی بناکر اس میں اپنے
 مطالبات کے منظور ہونے تک رہنے کا اعلان کردیا۔ ان کے مطالبات میں سر فہرست غزہ میں جنگ بندی اور کولمبیا یونیورسٹی کے اسرائیل کے ساتھ تمام کاروباری تعلقات ختم کرنا شامل ہیں۔ امریکہ کی کئی جامعات اسرائیل کے ساتھ اربوں ڈالر کا کاروبار کرتی ہیں۔ اس وقت نیو یارک سے ٹیکساس اور نارتھ کیرو لائنا سے کیلی فورنیا تک درجنوں یونیورسٹیوں میں مظاہرین Divestment یعنی اسرائیل  میں سرمایہ کاری کو ختم کرنے کا مطالبہ کرر ہے ہیں۔ ان طالب علموں کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیوشن فیس کسی ایسے ملک کو نہیں ملنی چاہیے جس کے ہاتھ ہزاروں مظلوم انسانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہوں۔ملک بھر میں جامعات کیونکہ ایک وار زون بن چکی ہیں اس لئے ان کی انتظامیہ کی طرف سے بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں کہ اس احتجاج کو جلد جلد از ختم کر دیا جائے۔ کہیں پولیس کو طلب کیا جا رہا ہے تو کہیں بیسیوں طالب علموں کو یونیورسٹی سے خارج کردیا گیا ہے۔ اب تک مختلف جامعات میں گیارہ سو کے لگ بھگ طالب علموں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود یہ آگ پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ اب اس تصادم نے ا س لئے تشویشناک صورت اختیار کر لی ہے کہ اسرائیل کے حمایتی یہودی طالب علموں نے بھی جامعات میں خیمے لگا کر مخالفین کا مقابلہ شروع کر دیا ہے۔ یہ گروہ اگر چہ کہ تعداد میں بہت کم ہے مگر اسے مین سٹریم میڈیا کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ یہ
 صیہونی اس موقف کا پرچار کر رہے ہیں کہ فلسطین کے حمایتی بنیادی طور پر  Antisemetic یعنی یہود مخالف ہیں اور ان کا اصل مقصد اسرائیل کا خاتمہ ہے۔ امریکہ میں تمام بڑے اخبارات اور نیوز چینل اتنی شدو مد سے یہودی مظاہرین کی حمایت کر رہے ہیں کہ جیسے انہیں جامعات میں ہونے والی اصل کشمکش کا پتہ ہی نہیں۔ بعض بڑے اخبارات لوگوں کی توجہ اصل حقائق سے ہٹانے کے لئے 1960ء اور 70 ء کی دہائی میں ہونے والی ویت نام جنگ کے دوران طالب علم تحریک کے تذکرے کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ نصف صدی پہلے کی تحریک میں طالب علم متحد تھے جب کہ آج یہ بری طرح منقسم ہیں۔  دوسری طرف بائیڈن انتظامیہ کھلم کھلا غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے طالب علموں کو قانون اپنے ہاتھ میں نہ لینے کے مشورے دے رہی ہے۔ صدر بائیڈن نے طالب علموں کی تحریک کو Reprehensible and dangerous یعنی قابل مذمت اور خطرناک قرار دیا ہے۔امریکی میڈیا‘ اسرائیلی بربریت کے خلاف پھیلتی ہوئی اس تحریک کا مکمل بائیکاٹ نہیں کر سکتا اس لئے اس نے اس کی کوریج کے دورانیے کو بہت کم کر دیا ہے۔ امریکی حکومت ا ور میڈیا کا یہ حالت انحراف ان کی بے بسی کو ظاہر کر رہا ہے۔ امریکی جامعات میں فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے مظاہروں کی شدت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکی معاشرہ  اسرائیل سے خصوصی تعلقات کے باب میں ایک Watershed Moment یا اہم موڑتک آ پہنچا ہے۔نظر یہی آ رہا ہے کہ صدر بائیڈن کو اسرائیل کی حمایت کی قیمت نومبر کے صدارتی انتخابات میں ادا کرنا پڑے گی۔یہ طے ہو چکا کہ امریکہ کی نئی نسل اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کی پالیسی جاری رکھنے پر قطعاّّ آمادہ نہیں ہے۔ اسی وجہ سے فلسطین کے مسئلے کے دو ریاستی حل کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔