لاتوں کے بھوت اور”لائی کرگس“

ماضی بعید میں قدیم یونان میں بھی ایک ایسا بھی  وقت گزرا  تھا جو وطن عزیز میں آج کے دور میں گزر رہا ہے‘ جب مٹھی بھر اشرافیہ ملکی دولت اور وسائل پر حاوی تھی جب لوگ سونے اور چاندی پر سانپ بن کر بیٹھ گئے تھے جب سونے اور چاندی کو معدودے چند لوگوں نے مختلف انداز میں منجمد کر دیا تھا‘ ماہرین معیشت اس بات کی گواہی دیں گے کہ جب سونا سرکولیشن میں نہیں رہتا تو ملک کی معیشت جام ہو کر رہ جاتی ہے  یونان کے اس قدیم دور میں خدا کا ایک ایسا بندہ پیدا ہوا کہ جس نے جہاں اراضی کو مساوی حصوں میں تقسیم کر کے تمام بے زمین ہاریوں اور کسانوں میں تقسیم کیا اس نے یہ کوشش بھی کی کہ سونے اور چاندی کے ذخیرہ کرنے والوں پر بھی ہاتھ ڈال کر ان سے ان قیمتی دھاتوں کو چھین کر تمام لوگوں میں مساوی طور پر تقسیم کیا جائے‘ پر مفاد پرست اشرافیہ نے اس کی اس کوشش میں روڑے اٹکائے جس پر اس نے یہ حربہ استعمال کیا کہ اس نے اعلان کر دیا کہ ان دو دھاتوں کی  بطور زر اور زر مبادلہ حیثیت ختم  کی جاتی ہے‘ یعنی کوئی شخص چاندی یاسونے کے بدلے کوئی چیز خرید یا فروخت نہیں کر سکتاتھااور ان کی جگہ لوہے کو زر استعمال اور زرمبادلہ کا درجہ دے دیا اور اس کی قدر بھی بہت گرادی‘اس طرح مفاد پرست اشرافیہ اور سونے کو مختلف انداز میں  منجمد کرنے والوں  کے ہوش ٹھکانے لگا دئیے‘اس عمل سے یہ ہوا کہ معاشرے میں سونے اور چاندی کی وقعت ختم ہو گئی۔اس انقلابی کا نام تھا  لائی کرگس۔ آج بھی خدا کرے کوئی اسی قسم کا انقلابی  وطن عزیز میں بھی  پیدا ہو  جائے جو اس ملک میں گنتی کے چند لوگوں کی ملکی دولتپر گرفت ختم کر نے کے لئے اسی قسم کا کوئی انقلابی قدم اٹھائے کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے تھوڑی مانتے ہیں‘ان پر ڈنڈا چلانا عام آدمی کے مفاد میں ضروری ہوتا ہے‘لائی کرگس یونان کی ایک افسانوی شخصیت ہے‘مورخین کے خیال کے مطابق لاہی کرگس حضرت مسیح سے نوسو سال پیشتر پیدا ہوا تھا اس کا یونان کی اس وقت کی حکومت میں بطور اتالیق مقرر ہونا تواریخ سے ثابت ہے‘ جس وقت لاہی کرگس اتالیق مقرر ہواتو یونان میں زرعی زمین بھی چند خاندانوں کی ملکیت تھی‘ بقیہ لوگ مزارعوں یا ہاریوں کی مانند کھیتوں میں کام کرتے تھے‘ زمین پر ان کا کوئی حق نہ تھا‘ لائی کرگس نے اراضی کے  39 ہزارمساوی ٹکڑے کئے اور ان کو کاشتکاروں میں برابر بانٹ دیا۔
عوام کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا اگر کوئی باریک بینی سے جائزہ لے تو وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ انکی وجہ گڈ گورننس کا فقدان ہے اگر تحصیلدار سے لے کر ضلع کے ڈپٹی کمشنر تک ہر اہلکار روزانہ اپنے دفتر میں عوام کی شکایات سننے کیلئے کچھ وقت مختص کردیں مسائل میں یقینا کمی آئے گی۔