بھارت: انتخابی بھول بھلیاں۔۔

بھارت میں انتخابات کا مرحلہ وار عمل جاری ہے اور اٹھارہویں لوک سبھا انتخابات کے لئے بھارتیہ جنتہ پارٹی (مودی حکومت) کے مقابلے حزب اختلاف کی جماعت کانگریس سمیت 26 سیاسی پارٹیوں کا سخت مقابلہ کر رہی ہے اور یہ مقابلہ وقت کے ساتھ شدت اختیار کر گیا ہے۔ بھارت اور دیگر ممالک کے سیاسی پنڈتوں نے نریندر مودی کی جیت کی پیش گوئی کر رکھی ہے تاہم یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔ مودی کی سیاست میں خامی ہے اور وہ یہ کہ وہ ہمیشہ کی طرح اِس مرتبہ بھی پاکستان مخالف اور فرقہ وارانہ بیانیہ قائم کئے ہوئے ہے جو شاید زیادہ کامیاب نہ ہو۔ مودی کی قیادت والا ’این ڈی اے‘ نامی سیاسی جماعتوں کا انتخابی اتحاد فرقہ وارانہ واقعات کی حمایت و ہمدردی میں بیانات دیتا ہے۔ بھارت کا سیاسی و انتخابی میدان میں جنگ کا ماحول ہے۔ توقع ہے کہ ڈی ایم کے‘ جے ڈی (ایس) اور اے آئی اے ڈی ایم کے جیسی مقامی پارٹیوں کی ترجیحات کو دیکھتے ہوئے کیرالہ‘ کرناٹک‘ تامل ناڈو اور تلنگانہ ’کے این ڈی اے‘ کی طرز پر ووٹ دیں گے جبکہ مہاراشٹر‘ مغربی بنگال‘ بہار‘ تریپورہ اور منی پور جیسی ریاستوں میں مقامی مسائل وفاقی سیاست سے زیادہ مقبول ہیں۔ اس سے ایک قسم کا توازن پیدا ہوتا ہے۔ گجرات‘ راجستھان‘ اتر پردیش‘ مدھیہ پردیش‘ ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ جیسی ریاستوں میں ’بی جے پی‘ کا غلبہ ہے۔ اتراکھنڈ میں اگنی پتھ اسکیم جیسے مسائل کے باوجود ’بی جے پی‘ اتحاد کو زیادہ نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ مودی کا ”اب کی بار چار سو پار“ (اس بار ہم چار سو سے زیادہ نشستیں جیتیں گے کا نعرہ) یہ دیکھتے ہوئے لگایا گیا ہے کہ اُن کا اتحاد ساڑھے چارسو سیٹوں پر الیکشن لڑ رہا ہے۔ چارسو کا ہندسہ صرف 80 فیصد اسٹرائیک ریٹ سے حاصل کیا جاسکتا ہے جبکہ آزاد تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مودی 60فیصد نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ”دی ٹیڈل ٹمبر آف نیو انڈیا“ نامی کتاب کے مصنف ’پربھاکر‘ جیسے بھارتی دانشوروں نے این ڈی اے اتحاد کی تقریبا دوسوبیس سے دوسوتیس نشستیں جیتنے کی پیش گوئی کی ہے لیکن وہ متنبہ کرتے ہیں کہ فرقہ وارانہ منافرت اور اقلیتوں کو الگ تھلگ کرنے پر عوام کا ردعمل مختلف ہو سکتا ہے۔ کرن تھاپر‘ نیرج چودھری اور پرکالا پربھاکر جیسے بھارتی سیاسی مبصرین اور دانشوروں کے مطابق این ڈی اے کے لئے حیرت کا امکان سابق مودی بینڈ ویگن کی عدم موجودگی اور بے روزگاری اور افراط زر جیسے مسائل ہیں جس نے ایک عام بھارتی جس کا تعلق متوسط اور نچلے طبقے سے ہے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ پربھاکر کے مطابق‘ معاشی تبدیلی کا بلند و بالا دعویٰ اور 8فیصد کی شرح نمو دراصل فریب ہے۔ ان کے مطابق اس شرح کے ساتھ چوبیس فیصد بے روزگاری‘ بچت کا تناسب جی ڈی پی کا پانچ اعشاریہ ایک فیصد اور اب تک کا سب سے زیادہ قومی قرض ہے۔ بھارت میں بے روزگاری اِس قدر زیادہ ہے کہ ایلیٹ آئی آئی ٹی گریجویٹس کو بھی ملازمتیں نہیں مل رہیں اور نیم ہنر مند افراد کی حالت تو اِس سے بھی بدتر ہے۔ پیو ریسرچ سنٹر کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سال دوہزاراکیس میں کورونا وبا کے دوران ساڑھے سات کروڑ بھارتی غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے تھے۔ یہ اعداد و شمار بی جے پی حکومت کے ساڑھے اکتالیس کروڑ بھارتیوں کو غربت کے جال سے نکالنے کے دعوؤں کے منافی ہیں۔ پربھاکر جیسے غیرجانبدار دانشور بھی اس طرح کے دعوؤں کی نفی کرتے ہیں جو ’بی جے پی‘ حکومت گمراہ کن اعداد و شمار پیش کرتی ہے۔بھارت میں عدم مساوات میں اضافہ ہو رہا ہے جو عام بھارتیوں کے لئے ایک اور تشویش کا باعث امر ہے اور جس کا ثبوت ’بھارت میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات 1922-2023ء‘ کے عنوان سے ورلڈ ایکویلیٹی لیب رپورٹ ہے۔ بھارت میں شناخت کی سیاست معاشی کارکردگی پر غالب ہے‘ اس لئے بھارتی انتخابات میں نفرت پھیلائی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہندوتوا کا زہر جو بھارت کے سماج میں ڈالا گیا ہے‘ اس نے دلتوں (نچلی ذات کے ہندوؤں)کو بھی نہیں بخشا‘ جو کہ بھارت کا ایک انتہائی پسماندہ طبقہ ہے۔ قرون وسطیٰ کی قبائلیت میں بھارتی قوم کے رد عمل کی وجہ سے صورتحال مایوس کن ہے۔ پربھاکر کے مطابق‘ بھارت کی اقتصادی ترقی ایک دہائی پیچھے چلی گئی ہے جبکہ سیاست 1947ء سے پہلے کے دنوں میں واپس آ گئی ہے‘ جس میں سب سے زیادہ نقصان سماجی ہم آہنگی کو ہوا ہے جو چار صدیوں پیچھے ہے۔بھارت کے انتخابات میں 96 کروڑ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے اور انتخابات پر ساڑھے چودہ ارب ڈالر اخراجات ہو رہے ہیں۔ اِن انتخابات سے منصفانہ نتائج کی توقع نہیں کیونکہ بھارتی عدلیہ‘ بھارتی الیکشن کمیشن اور بھارتی میڈیا جیسے اداروں نے ہتھیار ڈال رکھے ہیں اور یہ مودی کی حمایت کر رہے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد منافع بخش نوکریوں کے ذریعے ججوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا یا رشوت دی جاتی اور الیکشن کمیشن آف انڈیا آر ایس ایس کے ہمدردوں سے بھرا ہوا ہے جبکہ میڈیا شہری آزادیوں کے تحفظ نہیں کر رہا۔ مودی کی بیان بازی کے خلاف بھارتیوں کے اتحاد میں ایک مشترکہ منشور اور متحد آواز کا بھی فقدان پایا جاتا ہے۔ سال 2019ء کے مقابلے مودی کے جیتنے کا امکان کم ہے لیکن بھارت کی سیاست میں جو فرقہ وارانہ زہر گھولا گیا ہے‘ اسے صاف کرنے کے لئے ایک الیکشن نہیں بلکہ کئی دہائیاں درکار ہوں گی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر راشد ولی جنجوعہ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)