امن و آشتی کی ضرورت 

 ہمیں اپنے ملک کو دو بارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے‘ اگر خدا نخواستہ اگر ہم نے اس پر توجہ نہ دی تو  کہاں کی سیاست اور پھر کون سیاست کرے گا اور کہاں کرے گا؟ ملک کی گھمبیر معاشی صورت حال کی واضح وجوہات ہیں۔ارباب بست و کشاد مالی طور پر اتنے نحیف ہو چکے ہیں کہ بیرونی قرضوں کی بیساکھیوں کے بغیر وہ دو قدم بھی نہیں اٹھا سکتے کب تک ہم آئی ایم ایف کے قرضوں کابوجھ اٹھاتے پھریں گے اور ہاتھ میں  کچکول اٹھاے کبھی عر ب امارات تو کبھی سعودی عرب اور چین سے رابطے کریں گے۔ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے‘قناعت کا مظاہرہ سب سے پہلے ملک کی اشرافیہ اور ارباب بست و کشاد کو کرنا ہو گا،جتنی چادر ہو اس کے مطابق پیر پھیلانے کا سبق انہوں نے لگتا ہے  بھلا دیا‘غیر ترقیاتی کاموں پر اخراجات کم کرنے کا انہوں نے کبھی سوچا ہی نہیں۔ ان ابتدائی کلمات کے بعد بعض اہم امور پر ہلکا سا تبصرہ کرلیں توبے جا نہ ہوگا۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کی منظوری کی قرارداد بلا شبہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے‘ یقینا یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے‘وقت آ گیا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملک بھرمیں اپنے جلسے جلوسوں کے انعقاد کے بارے میں کوئی ایسا لائحہ عمل وضع کریں کہ جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں احتجاج کرنا تو بلا شبہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے‘پر اس کا طریقہ کار ایسا ہونا چاہئے کہ جس سے خلقت خدا کے روزمرہ کے معمولات زندگی میں فرق نہ پڑے‘ ملک کے ہر بڑے شہر میں جلسوں کے انعقاد کے واسطے بڑے بڑے گراؤنڈز بھی موجود ہیں اور پارک بھی‘جہاں پر لاکھوں لوگوں کا مجمع بہ آسانی سما سکتا ہے‘تمام سیاسی جماعتوں کے زعماء ایک متفقہ فیصلہ کر لیں کہ انہوں نے حکومت کے کسی فیصلے پر احتجاج رجسٹر کرنے کیلئے کوئی جلسہ کرنا ہے تو وہ ان کھلی جگہوں پر جمع ہو کر ایسا کریں گی جس کے لئے انہیں متعلقہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو تحریری طور پر مطلع کرنا ہوگا تاکہ ضلعی انتظامیہ وہاں وقت مقررہ پر سکیورٹی انتظامات فراہم کر سکے۔ ویسے اس سے بھی بہتر طریقہ کار تو یہ ہے کہ جس کسی نے بھی کسی مسئلے پر حکومت کے سامنے  اپنا احتجاج اجا گر کرنا ہو تو وہ مارکیٹ میں موجود درجنوں ٹیلی ویژن چینلز سے رابطے کر کے ان سے ائر ٹائم air timeخرید کر ٹیلی وژن سکرین کے ذریعہ عوام کو اپنا مدعا بیان کر سکتا ہے‘اس طرح ہینگ لگے گی نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے گا۔نہ جانے اس طریقہ کار کی طرف سیاسی جماعتوں کی نظر کیوں نہیں جاتی‘اس طریقہ کار سے تمام سیاسی پارٹیوں کو یکساں فائدہ مل سکتا ہے اور یہ روزانہ سڑکوں پر جو ٹریفک جام ہوتا ہے اور پولیس اور روڈ بند کرنے والوں کے درمیان لڑائی مار کٹائی کے واقعات ہوتے ہیں ان کا بھی خاتمہ ہو سکتا ہے‘ زیادہ دور کی بات نہیں جب سیاسی جماعتیں اپنے جلسے عشا ء کی نماز کے بعد چند مخصوص مقامات پر منعقد کیا کرتی تھیں‘جیسا کہ چوک یادگار پشاور‘ لیاقت باغ راولپنڈی‘ موچی گیٹ لاہور‘ آرام باغ کراچی۔ تاکہ ان کے جمگھٹوں سے عام آ دمی کے معمولات زندگی پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔