ٹرمپ‘ عدالت اور جیل

ڈونلڈ ٹرمپ گذشتہ تین ہفتوں میں پندرہ دن ایک ملزم کی حیثیت سے مین ہیٹن کے ڈسٹرکٹ کورٹ میں پیش ہوئے۔یہ عدالت ایک ایسی عمارت میں واقع ہے جو 1838ء میں بنائی گئی تھی۔ ان دنوں ایک جیل اور پھانسی گھاٹ بھی اس میں شامل تھے۔ ڈاؤن ٹاؤن میں Center Streetپر واقع اس عمارت میں 1941 ء میں تبدیلیاں کر کے اسے اس وقت کے طرز تعمیر کے مطابق بنایا گیا تھا۔ آج کل ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ درجنوں صحافی‘ وکلاء‘ عدالتی عملہ اور عام شہری بھی صبح ساڑھے نو بجے سے پہلے یہاں پہنچ جاتے ہیں۔ ٹیلی ویژ ن کیمروں کو ریکارڈنگ کی اجازت نہیں ہے اس لئے اس تاریخی اور ڈرامائی مقدمے کی کاروائی براہ راست نہیں دیکھی جا سکتی۔ عدالت میں بیٹھے ہوئے رپورٹر لمحہ بہ لمحہ اپنے لیپ ٹاپ کے ذریعے رپورٹس فائل کرتے رہتے ہیں۔ تمام بڑے نیوز چینلز دن رات مسلسل ان رپورٹوں پر تبصرے اور تجزیے پیش کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو کمرہ عدالت میں بیٹھے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کے چہرے کے تاثرات اور اس کی بدن بولی کو دیکھنا چاہتے ہیں انہیں سخت مایوسی ہو رہی ہے۔ وہ اس تاریخ ساز سابقہ صدر اور حالیہ صدارتی امیدوار کی لائیو ویڈیو ریکارڈنگ صرف اس وقت دیکھتے ہیں جب وہ صبح ساڑھے نو بجے اپنے باڈی گارڈز کے ہمراہ لیمو زین سے اتر کر اس عمارت میں داخل ہوتا ہے۔ شام چار بجے اس کی واپسی کا بھی ملک بھر میں انتظار کیا جا تا ہے۔ اس کے علاوہ لنچ بریک میں جب وہ ہر روز امریکی نظام انصاف‘ ڈسٹرکٹ اٹارنی‘  اس مقدمے کے جج‘ گواہوں اور صدر بائیڈن کو کوسنے سناتا ہے تو اس وقت ٹیلیویژن نیوز   Infotainment  یعنی تفریح مہیا کرنے والی انفارمیشن بن جاتی ہے۔ اس مقدمے کا جج Juan Merchan دو مرتبہ توہین عدالت کے جرم میں ڈونلڈ ٹرمپ کو دس دس ہزار ڈالر کے جرمانے کر چکا ہے۔ ایک مرتبہ اس نے ملزم کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”مسٹر ٹرمپ‘ آپ کے لئے یہ سمجھنا
 ضروری ہے کہ آپ کو جیل بھیجنا وہ آخری کام ہے جو میں کرنا چاہتا ہوں۔ آپ سابقہ صدر ہیں اور ممکنہ طور اس ملک کے اگلے صدر بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر چند وجوہات کی بنا پر بھی میں آپ کو جیل بھیجنے سے گریز کر نا چاہتا ہوں“  جج Juan Merchanنے یہ ریمارکس توہین عدالت کے حوالے سے دیئے تھے۔ اس روز عدالت سے واپسی پر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹر پر یہ میسج پوسٹ کیاCrooked Judge threatening me with jail. یعنی یہ بدمعاش جج مجھے جیل بھیجنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ بعد ازاں اس پوسٹ کو حذف کر دیا گیاتھا۔عام تاثر یہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ چاہتا ہے کہ اسے جیل بھیج دیا جائے۔ اس طرح سے اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو جائیگا‘جب سے یہ Hush Money Trial شروع ہوا ہے‘ مختلف سرویز کے مطابق سابقہ صدر سے لوگوں کی ہمدردی میں اضافہ ہو اہے‘ اس مقدمے کے آغاز سے ہی ڈونلڈ ٹرمپ‘  ڈسٹرکٹ اٹارنی Alvin Bragg اور جج کی بیٹی پر ڈیمو کریٹک پارٹی کے ممبر ہونے کا الزام لگا رہا ہے‘ اس مقدمے کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے Alvin Bragg نے جیوری کو بتایا تھا کہ2006ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے Nevada کے تفریحی مقام Lake Tahoe کے ایک ہوٹل میں پورن سٹار Stormy Daniel کے ساتھ کچھ وقت گزارا تھا۔ اس کے بعد 2016ء کی انتخابی مہم کے دوران اس خاتون نے ٹرمپ کو دھمکی دی تھی کہ وہ 2006 ء کے اس تعلق کی تمام تفصیلات
 میڈیا کو بتا دے گی۔ اس صورتحال کو سنبھالنے کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سیکرٹری مائیکل کوہن‘ جو کہ ایک وکیل بھی تھا کو سٹارمی ڈینیل کو خاموش کرانے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ مائیکل کوہن نے ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر زکے عوض پورن سٹار سے  معاہدہ کر کے اسے خاموش رہنے پر آمادہ کر لیا تھا۔ ڈسٹرکٹ اٹارنی ایلون بریگ کے مقدمے کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ اگر 2016ء کے الیکشن کے دوران ٹرمپ کے اس سکینڈل کی تفصیلات سامنے آ جاتیں تو وہ صدر منتخب نہ ہو سکتا۔ ٹرمپ نے اپنی زندگی کے اس اہم پہلو کو صیغہ راز میں رکھ کر لوگوں کو دھوکہ دیا ہے اس لئے وہ الیکشن فراڈ کا مرتکب ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ سزا کا مستحق ہے۔ نیویارک کے ڈسٹرکٹ اٹارنی نے یہ الزام بھی لگا یا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک لاکھ تیس ہزار ڈالرکی یہ رقم اپنے کاروباری اخراجات میں Legal Fees کے طور پر ظاہر کر کے انکم ٹیکس کے ہزاروں ڈالر بچا ئے ہیں اس اعتبار سے وہ Falsification Of Business Record یعنی کاروباری ریکارڈ میں ردو بدل کرنے کے جرم کا مرتکب بھی ہوا ہے۔اس مقدمے کا اہم ترین گواہ مائیکل کوہن ہے جس نے 2019ء  میں ایک مختلف مقدمے میں اپنے سابقہ باس کے خلاف گواہی دے کر اس سے راہیں جدا کر لی تھیں۔ اگلے ہفتے اس نے استغاثہ کی طرف سے بطور گواہ پیش ہونا ہے۔ گذشتہ ہفتے سٹارمی ڈینیل نے مسلسل تین دن تک ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنے تعلق کی تفصیلات بتا کر پورے ملک کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا تھا۔ یہ باتیں وہ اپنی کتاب میں بھی بیان کر چکی ہے مگر اس مرتبہ اسکی کہانی کا مرکزی کردار اس سے صرف چند فٹ کے فاصلے پر بیٹھا ہوا پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ اس مقدمے میں دلچسپی رکھنے والے لاکھوں افراد اب مائیکل کوہن کے سنسنی خیز بیان کے منتظر ہیں۔اب وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی میں بتائے گا کہ اس نے کیسے ایک لاکھ تیس ہزار ڈالرز اپنی جیب سے دیکر بعد میں ڈونلڈ ٹرمپ سے وصول کئے تھے۔