پاکستان سعودی عرب شراکت

پاکستان اور سعودی عرب شراکت کے ایک نئے دور میں داخل ہوگئے ہیں سعودی عرب سالانہ 240 ارب ڈالر مالیت کا تیل برآمد کرتا ہے ہم سعودیوں سے صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں ایک ارب ڈالر کا تیل ادھار دے دیا جائے سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) کے اثاثوں کا تخمینہ 925ارب ڈالر ہے۔ ہم سعودی عرب سے صرف یہ چاہتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) میں  3ارب ڈالر جمع کرانے کی مدت میں توسیع کی جائے۔ ہمیں پی آئی ایف کی سرمایہ کاری اور فنڈنگ یعنی قرض دینے سے متعلق شرائط و ترجیحات‘ کے بارے غوروفکر کرنا ہوگا۔ پی آئی ایف کے پاس سعودی عرب کے مستقبل کے لئے ایک ویژن اور حکمت عملی ہے۔ پی آئی ایف سعودی معیشت کو ذہین معیشت میں تبدیل کرنے کی خواہش مند ہے‘ جو دو جدید ٹیکنالوجیز: مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور انٹرنیٹ آف تھنگز (آئی او ٹی) پر منحصر ہے۔ اس تبدیلی کا مقصد سعودی معیشت کو متنوع بنانا اور مقامی اور بین الاقوامی سطح پر سرمایہ کاری کرنا ہے۔ولی عہد شہزادہ بن سلمان پی آئی ایف کے بورڈ کے سربراہ ہیں۔ کوئنزلینڈ یونیورسٹی سے سائنس میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری حاصل کرنے والے اینڈریو لیورس اسٹریٹجک امور پر ولی عہد کے خصوصی مشیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لیورس کا تجربہ دو سابق امریکی صدور کو مشورہ دینے تک پھیلا ہوا ہے۔ کیون فوسٹر پی آئی ایف کی مینجمنٹ کمیٹی کے رکن ہیں۔ رائل بینک آف کینیڈا (آر بی سی) کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر‘ آر بی سی کے کیپٹل مارکیٹس‘ ٹریڑری سروسز‘ پرائیویٹ بینک اور ویلتھ مینجمنٹ کے سربراہ فوسٹر تین پوسٹ گریجویٹ ڈگریاں اور ایم بی اے رکھتے ہیں۔ جیری ٹوڈ پی آئی ایف کی مینجمنٹ انویسٹمنٹ کمیٹی کے رکن ہیں۔ ٹوڈ میک کنزی میں ایسوسی ایٹ پرنسپل رہ چکے ہیں اور کارنیل سے ایم بی اے کے حامل ہیں۔ کوئی اندازہ ہے کہ پی آئی ایف کا انٹرنل آڈٹ کا سربراہ کون ہے؟ مائیک چینگ‘ وہ بارکلیز کے آڈٹ کے سربراہ‘ پروڈینشل میں انٹرنل آڈٹ کے سربراہ اور ڈوئچے بینک میں مختلف سینئر آڈٹ عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ چینگ ایک کوالیفائیڈ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ‘ آڈٹ انڈسٹری کے نمایاں رہنما ہیں اور سنگاپور اکاؤنٹنسی کمیشن کے ساتھ انٹرنل آڈٹ سینٹر آف ایکسیلینس ورک گروپ کے شریک بانی بھی ہیں۔کیا ہم اس گروپ کے ساتھ شراکت کے لئے تیار ہیں؟ ریاض کی اولین ترجیح ’ذہین معیشت‘ بنانا ہے جس کا مطلب چار چیزیں ہیں: ڈیجیٹل انفراسٹرکچر‘ قابل تجدید توانائی‘ جدت طرازی‘ تعاون اور عالمی شراکت داری۔ پاکستان کے پاس قدرتی وسائل ہیں۔ تانبا وہ خفیہ ہتھیار ہے جو ذہین معیشت کو طاقت دیتا ہے۔ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر‘ قابل تجدید توانائی‘ برقی گاڑیاں‘ شمسی پینل‘ ونڈ ٹربائن‘ جیوتھرمل توانائی‘ کریوجینکس‘ روبوٹکس‘ ہائیڈروجن کی پیداوار‘ فائیو جی‘ کوانٹم کمپیوٹنگ‘ ڈرون ٹیکنالوجی اور بائیوڈی گریڈایبل بیٹریاں۔ سب تانبے کی مرہون منت ہیں۔ سعودی عرب خلیج کا سب سے بڑا کان کن ہے جو عالمی سطح پر کان کنی کے اثاثوں میں سرمایہ کاری کرتا ہے۔ کیا ہم ریاض کے ساتھ شراکت کے لئے تیار ہیں؟ ریاض نے سرکاری ملکیت والی مصری جنرل پیٹرولیم کارپوریشن (ای جی پی سی) میں سرمایہ کاری کی ہے۔ پی ایس ایکس کی فہرست میں شامل پی ایس او‘ او جی ڈی سی‘ ایم اے آر آئی‘ پی پی ایل کیوں نہیں؟ ریاض اس وقت مصر میں دس آف شور ڈرلنگ رگ چلا رہا ہے۔ کراچی کے ساحل سے دور کیوں نہیں؟ ریاض نے مصر کے سرکاری ملکیت والے نیشنل بینک میں سرمایہ کاری کی ہے۔ نیشنل بینک آف پاکستان کیوں نہیں؟ ریاض نے مصر میں 2900 منصوبوں پر 27 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کیا ہم ریاض کے ساتھ شراکت کے لئے تیار ہیں؟ ریاض سعودی سرحدوں سے باہر اپنے اثرات کو مضبوط اقتصادی شراکت داری میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔کیا ہم معاشیات کو سیاست سے الگ کرنے کے لئے تیار ہیں؟ ریاض ترقی کی صلاحیت رکھنے والے شراکت داروں کو ترجیح دیتا ہے۔ کیا ہم اپنی سرکاری ملکیت والی پی ایس ایکس کی فہرست میں شامل توانائی کی بڑی کمپنیوں سے فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی بنا رہے ہیں؟ ریاض طویل مدتی اثرات اور باہمی اقتصادی ترقی پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ کیا ہم اپنی مضبوط معاشی بنیادوں کو ظاہر کرنے کے لئے اپنی صلاحیت بڑھانے پر بھی کام کر رہے ہیں؟ دو حقائق سے متعلق چار سوالات لائق توجہ ہیں۔ حقائق: ریاض کے ساتھ شراکت داری کا وقت آ گیا ہے۔ ہمارے پاس صلاحیت موجود ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

 سوالات: کیا ہمارے پاس اپنی طاقت سے فائدہ اٹھانے اور ریاض کے سامنے زبردست تجویز پیش کرنے کی حکمت عملی ہے؟ کیا ہم فعال طور پر پاکستان کی مضبوط معاشی بنیادوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے اس شراکت داری کے لئے اپنے عزم کا اظہار کرنے کے لئے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا ہے؟ کیا ہم واقعی غیر فعالیت کے ممکنہ نتائج کو سمجھتے ہیں؟ یہ سعودی عرب کی جانب سے پچیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری محض پہیلی تو نہیں؟ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔