ہاکی‘ عروج و زوال کی کہانی

 پچھلے ہفتے کے روز ٹیلی ویژن پر پاکستان اور جاپان کے درمیان اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کا پاکستان اور جاپان کے درمیان فائنل میچ دیکھ کر پاکستان ہاکی ٹیم کے ان مایہ ناز کھلاڑیوں کے چہرے آنکھوں سے  گزر گئے کہ جن کی اس کھیل میں مہارت سے پاکستان 1948 ء سے لے کر 1990 ء تک یعنی لگ بھگ نصف صدی تک دنیائے ہاکی پر بلا شرکت غیرے راج کرتا تھا ان دنوں ہاکی ٹورنامنٹ عالمی اور ایشیائی اولمپکس گیمز میں ہر چار سال بعد کھیلا جاتاتھا،پاکستان کے قیام کے فوراً بعد 1948 ء میں لندن میں جو ورلڈ اولمپکس گیمز ہوئے اس میں ہماری ہاکی ٹیم چوتھے نمبر پر آئی‘ اس کے چار سال بعدہیلسنکی فن لینڈ کے 1952 ء کے  عالمی اولمپکس میں ہم نے کانسی کا تمغہ جیت کر یوں تمغے جیتنے کا ایک لمبا سلسلہ شروع کر دیا اس کے بعد 1956 ء میں کینبرا میں ہونے والے عالمی اولمپکس میں ہم نے چاندی کا تمغہ جیت کر دوسری پوزیشن حاصل کر لی۔ اگلے عالمی اولمپکس 1960 ء میں روم میں ہونے تھے‘ اس درمیانہ عرصے میں 1958 ء میں ٹوکیو  جاپان میں ایشیائی اولمپکس کا انعقادہوا جس میں پاکستان کی ہاکی ٹیم نے سونے کا تمغہ جیت کر ایشیا کی نمبر ون ہاکی ٹیم کا اعزاز حاصل کر لیا اور اس کے ٹھیک چار سال بعد یعنی 1960 ء میں روم کے عالمی اولمپکس میں پاکستان نے سونے کا تمغہ جیت کر دنیائے ہاکی میں پہلا مقام حاصل کر لیا اس کے بعد ہر چار سال بعد ہونے والے ایشیائی اور عالمی اولمپکس میں ہم یا تو سونے کا تمغہ جیتتے رہے اور یا پھر چاندی  کا۔ اب ذرا ذکرہو جائے ان پاکستانی  ہاکی کے کھلاڑیوں کا کہ جو اس عرصے میں دنیاے ہاکی پر چھائے   رہے ان میں سے جو نام یاد آ رہے  ہیں وہ ذیل کی سطور میں درج ہیں‘ عبدالحمید عرف  حمیدی‘ عاطف‘غلام رسول‘ نصیر بندہ‘ عبدالوحید‘ نور عالم‘مطیع اللہ‘انوار احمد خان‘ حبیب علی کڈی خورشید عالم‘ منیر ڈار‘ حیات‘خالد محمود سمیع اللہ‘ حسن سردار‘شہناز‘فضل رحمان‘اصلاح الدین‘ رشید جونیئر‘ قاضی محب‘ 1970 ء کے بعد اولمپکس کے علاوہ بھی عالمی سطح پر مختلف ممالک میں ہاکی کے ٹورنامنٹ شروع ہو گئے ۔پاکستان میں ہاکی کا زوال 1990 ء کی دہائی کے اواخر میں شروع  ہو گیا تھا جو ہنوز جاری ہے اور گزشتہ بیس برسوں میں ہم نے اس معیار کے کھلاڑی پیدا نہیں کئے جن کے نام اوپر کی سطورمیں درج ہیں جو قابل افسوس بات ہے‘جاپان کو ہم کئی کئی گولوں سے شکست دیا کرتے تھے آج ہم اس سے ہار رہے ہیں۔ا ب آتے ہیں ملکی اور عالمی اہم امور کے ہلکے سے تذکرے کی طرف‘غزہ کا مسئلہ طول پکڑ چکا ہے اور مستقبل قریب میں اس کا کوئی حل نکلنے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی‘بھارت میں مودی سرکار نے بھی کشمیریوں کے ساتھی وہی سلوک روا رکھا ہواہے کہ جو اسرائیلی حکومت  فلسطینیوں کے ساتھ کر رہی ہے۔ یوکرائن کی جب تک امریکہ ہلہ شیری کرتا رہے گا اور اسی طرح جب تک تائیوان کو امریکہ تھپکی دیتا رہے گا کسی وقت بھی یہ دنیا تیسری عالمگیر جنگ کا شکار ہو سکتی ہے اسوقت دنیا میں صرف چین کی قیادت وہ واحد قیادت ہے کہ جس کی تاریخ پر گہری نظر ہے اور اس نے اپنے ملک کو سپر پاورز کے آپس کے جھگڑوں اور جھمیلوں سے دور رکھ کر اپنی تمام تر توجہ اپنی تعلیمی‘سائنس اور معاشی و اقتصادی ترقی کی طرف مبذول کی ہوئی ہے اور ان کے ثمرات بھی اسے حاصل ہو رہے ہیں۔مقام شکر ہے کہ انجام کار ارباب اقتدار کو یہ احساس اب ہو چلا ہے کہ معاشرے میں سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی نے مختلف شعبوں میں جو انتشار اور غلط فہمیاں پیدا کر دی ہیں ان کے تدارک کے واسطے کسی ریگولیٹری اتھارٹی کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں مناسب قانون سازی کا اہتمام کیا جانے والا ہے۔