بھارت: انتخابات اور سیاست

بھارت میں اُنیس اپریل سے یکم جون دوہزارچوبیس تک ہونے والے عام انتخابات میں سینما کا استعمال بھی ہو رہا ہے اور رائے دہندگان کو متوجہ کرنے کے لئے سیاسی جماعتیں سنیما کے ذریعے رائے دہی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جو وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں تیسری مدت کے لئے اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے‘ نے پارٹی کے مقاصد اور نظریات کو پھیلانے کے لئے دوسروں کے مقابلے میں سنیما کا ذریعہ سب سے زیادہ استعمال کیا ہے۔ بی جے پی بھارت کو ہندو قوم قرار دیتی ہے۔ مودی حکومت ٹیکس چھوٹ دینے اور ریگولیٹری پابندیوں کو ہٹانے کے ذریعے ’بی جے پی‘ کے نظرئیے کو فروغ دینے والی فلموں کی کھلے عام حمایت کرتی ہے‘ خاص طور پر جب ایسی فلمیں انتخابات سے پہلے سینما گھروں میں ریلیز ہونے کے لئے حکمت عملی کے مطابق ہیں۔ خالصتا ًہندو قوم کے پرجوش حامیوں کی زندگی پر بننے والی فلم ’سوتنتریہ ویر ساورکر‘ ایسی ہی ایک فلم ہے جو عام انتخابات کے لئے پولنگ کا عمل شروع ہونے سے چند ہفتے قبل ریلیز کی گئی۔بھارت کی انٹرٹینمنٹ فلم انڈسٹری پیچیدہ ہے‘ اِس کی سالانہ تقریباً پندرہ سو فلمیں ریلیز ہوتی ہیں اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مداحوں کا وسیع نیٹ ورک یہ فلمیں دیکھتا ہے۔ شاندار کوریوگرافی کے معمولات‘ دلکش گیت‘ یادگار مکالمے اور تاریخی و مذہبی تصویریں اسے سیاسی جماعتوں کے لئے مواصلات کا پسندیدہ ذریعہ بناتی ہیں۔ سیاسی مقاصد کے لئے بھارت کے مقبول سنیما کے استعمال کی طویل تاریخ ہے‘ جو بھارتی آزادی سے پہلے کی ہے۔ ایک آرٹ مورخ کی حیثیت سے‘ میں نے سال 2009ء میں اپنی کتاب سیلولائیڈ دیوتا میں جنوبی بھارتی سنیما اور سیاست کی بصری ثقافت میں کا م کاجائزہ لیا۔ سنیما اور سیاست کے درمیان تعلق نے اسے متعدد کرشماتی سیاست دانوں کے طویل کیریئر کا بنیادی ذریعہ بنا دیا ہے ان میں سے کچھ سکرین رائٹر اور فلم پروڈیوسر ہیں جبکہ دیگر معروف اداکار اور اداکارائیں تھے۔ 1980ء کی دہائی کے بعد سے‘ سنیما کے استعمال کرنے کا ملک گیر رجحان بھی شروع ہوا۔ سینما گھروں میں فلمیں دیکھنا خوشگوار تجربہ ہوتا ہے۔ ماہر سماجیات لکشمی سرینواس نے اپنے اِس موضوع کو اپنی کتاب ”ہاؤس فل“ میں بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ کئی فلمیں ایسی ہیں جنہیں بھارت کے تہوار کی طرح بڑے پیمانے پر دیکھا گیا ہے۔بھارت کے تناظر میں بات کی جائے تو سنیما کا اثر فلم تھیٹر سے لے کر سڑک تک اشتہارات‘ فیشن اور فلمی موسیقی کی شکل میں پھیلا دکھائی دیتا ہے۔ آرٹ مورخ شالینی کاکڑ کا کہنا ہے کہ سنیما کا تماشا دیکھنے والے جذباتی ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ فلمی شائقین کے کیس اسٹڈیز پر تبادلہ خیال کرتی ہیں جو رہائشی اور تجارتی مقامات پر اِن ستاروں کے لئے مندر بنا کر اپنی پسندیدہ مشہور شخصیات کو دیوتا کے طور پر پوجتے ہیں۔ یہ مداح مذہبی تقریبات منعقد کرتے ہیں اور اپنے پسندیدہ ستاروں کے لئے عوامی تقریبات کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔مودی کی قیادت میں‘ فلمیں تین موضوعات کے گرد گھومتی ہیں ایسی فلمیں جو بی جے پی کے مقاصد اور پالیسیوں کی حمایت پر مشتمل ہوں۔ مثال کے طور پر‘ سال دوہزارسترہ میں ریلیز ہونے والی ایک فلم‘ ٹوائلٹ: ایک پریم کی کتھا یا ٹوائلٹ: اے لو اسٹوری میں ایک جوڑے کی کہانی بیان کی گئی جس کی شادی اِس وجہ سے ٹوٹ گئی کیونکہ اُن کے گھر بیت الخلا نہیں تھا۔ بھارت میں پاکستان مخالف فلمیں بھی بنائی جاتی ہیں جیسا کہ کشمیر فائلز‘ اِس فلم میں 1990ء کی دہائی کے اوائل میں شمالی بھارتی ریاست کشمیر سے ہندوؤں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کو دکھایا گیا‘ جب انہیں کشمیری مسلمانوں کی پاکستان نواز مسلح بغاوت کا نشانہ بنایا گیا تھا‘ یہ فلم‘ جس میں مسلمانوں کو بدنام کیا گیا اور انہیں  مبینہ طور پرانتہائی وحشیانہ اور ظالمانہ حرکتوں کا ارتکاب کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا اور یہ سب حقائق کے منافی ہیں۔ فلم پروڈیوسرز اور ڈسٹری بیوٹرز جن کا میں نے اپنی تحقیق کے لئے انٹرویو کیا وہ اس بات پر متفق تھے کہ انتخابات کے نتائج کی طرح یہ بھی درست اندازہ لگانا ناممکن ہے کہ کوئی فلم باکس آفس پر کامیاب ہوگی یا نہیں تاہم اگر بی جے پی کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا مناسب ہوگا کہ ہیٹ ٹرک کا ایک عنصر پارٹی پروپیگنڈے کے ذریعہ کے طور پر سنیما کی حمایت پر مبنی ہے۔ (مضمون نگار امریکہ میں یونیورسٹی آف میری لینڈ بالٹی مور میں آرٹ ہسٹری اینڈ میوزیم اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ بشکریہ ڈان۔ تحریر پریمندا جیکب۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)