یہ مس مینجمنٹ کیا ہوتی ہے؟

ماضی قریب کی بات ہے کہ جب کوئی بندوبستی علاقے میں جرم کر بیٹھتا تو فرار ہو کر علاقہ غیر میں پناہ لے لیتا اور وہاں پر کسی وڈیرے کا چاکر بن کر وقت گزار دیتا‘ یہ نہیں کہ وہاں پر قانون کی عملداری نہیں تھی مگر اتنا ضرور تھا کہ اس وقت ملک میں بیک وقت دو قوانین نافذ تھے‘ علاقہ غیر میں انگریز دور کا 40 واں فرانٹیئر کرائمز ریگولیشن یعنی40 ایف سی آر نافذ تھا جبکہ باقی ماندہ ملک میں تعزیرات پاکستان کا عدالتی قانونی نظام نافذ تھا‘ قبائلی علاقہ جات کا صوبہ خیبرپختونخوا میں اضلاع کی حیثیت سے ضم ہونے کے بعد40ایف سی آر کا لعدم ہوگیا اور یوں قبائلی علاقہ جات میں بھی ملک کاعدالتی نظام نافذ ہوگیا اور یوں بندوبستی علاقے سے کسی کا فرار ہو کر علاقہ غیر میں مفرور ہونے کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا مگر باعث تعجب امریہ ہے کہ اب صوبے کے دل پشاور میں ایک ایسا علاقہ موجود ہے جہاں پر قانون سے بھاگنے والوں نے پناہ لے رکھی ہے‘ میرا مطلب ان ناقابل استعمال ٹوسٹروک رکشوں اور پک اینڈ ڈراپ ٹیکسی اور محض ہلڑبازی یعنی ریس  سکریچنگ اور ون ویلنگ کیلئے پشاور یونیورسٹی کیمپس میں آنے والی گاڑیوں رکشوں اور موٹر سائیکلوں کا تذکرہ ہے جن کی سروس اور ان کی تمام تر بے اعتدالیوں اور ہلڑبازیوں پر قانوناً پابندی عائد ہے‘مگر کیا کہئے کہ یونیورسٹی کیمپس میں بلاروک ٹوک حد درجہ سرپھرے بن کر پھر رہے ہیں مگر میرے خیا ل میں معاملات اور مسائل سلجھانے کا ادراک رکھنے والے اسی ہی حالت کو مس مینجمنٹ یا بد انتظامی کہتے ہیں‘ اس بارے میں بارہا لکھا گیا‘تجاویز دی گئیں تنقید کی گئی مگر انتظامیہ اور پولیس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی‘ جامعات انتظامیہ اور کیمپس پولیس کے اوپر ادارے بھی قائم ہیں اور حکام بھی موجود ہیں مگر لگتا کچھ یوں ہے کہ جوابدہی کاکوئی نظام موجود نہیں یونیورسٹیوں سے سارے نہیں بلکہ کچھ کلاس فور ملازمین ریٹائرڈ ہو جائیں تو یہ نہیں کہ وہ مہینے میں محض ایک مرتبہ پنشن کیلئے آتے ہیں بلکہ وہ بدستور کیمپس میں رکشہ یا ٹیکسی مالک اورساتھ ہی ڈرائیور بن کر موجود رہتے ہیں اور یوں کیمپس میں انتظامیہ اور پولیس کیساتھ اپنے تعلق کی چھتری کے نیچے محفوظ ہوتے ہیں‘ ایک سروے کے دوران بھی اس امر کی تصدیق ہوگئی ہے کہ یونیورسٹی کیمپس کو جن سینکڑوں رکشوں‘ پک اینڈ ڈراپ اور ٹیکسی گاڑیوں نے اڈے میں تبدیل کرکے تعلیمی ماحول کو یکسر غارت کر دیا ہے وہ کیمپس کے چند موجودہ اور کچھ ریٹائرڈ ملازمین اور پولیس والوں کی ملکیت ہیں‘ چونکہ قانون کی عملداری‘ احساس ذمہ داری اور اونر شپ کا جذبہ اپنی موت آپ مرچکے ہیں اس لئے وادی پشاور کے ماضی قریب کے اس صاف ستھرے پرسکون اور مثالی تعلیمی ماحول کی برباری کو مقدر سمجھا گیا ہے ان سطور میں ایک بار پھر انتظامیہ کے جگانے کی  جسارت اور استدعا کرتے ہوئے راقم کوئی عار محسوس نہیں کر رہا کہ خدارا اب بھی وقت ہے یونیورسٹی کیمپس کے تعلیمی ماحول کو مزید برباری سے بچا کر قانون کی پاسداری کا ثبوت دیں مجھے یاد ہے کہ بی آر ٹی سروس شروع ہونے کے وقت حکومت کاکہنا تھا کہ اس کے بعد کوئی ناقابل استعمال گاڑی اور رکشے روڈ پر موجود نہیں رہیں گے یہ بالکل نہیں کہا تھاکہ وہ تمام تر ناقابل استعمال گاڑیاں ممنوعہ رکشے اور شہر بھر کے سر پھرے یونیورسٹی کیمپس جا کر پناہ لیں گے اور آزاد پھریں گے‘ یونیورسٹی میں طلباء کے بعد اساتذہ ہی بیسک سٹیک ہولڈر ہیں مگر پورے کیمپس کو چھوڑ کر محض پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ کی تعداد سات سو کے لگ بھگ ہے جن میں ایک بڑی تعداد کی رہائش بھی کیمپس ہی میں ہے مگر اس کے باوجود ماحول کی بربادی کے تماش بین بنے بیٹھے ہیں؟۔