کانگریس کی نشاۃ ثانیہ اور بی جے پی کا زوال

گو کہ عید قربان چاند دکھائی دیئے جانے کی صورت میں پیر کے دن 17 جون کو منائی جائے گی عید کی چھٹیوں کے دن 15 جون سے ہی شروع ہو جائیں گے کیونکہ ہفتے اور اتوار کو ویسے بھی سرکاری اور نجی دفاتر اور دیگر تجارتی ادارے بند ہی ہوتے ہیں تو اس لحاظ سے 14 جون عیدالاضحیٰ سے پیشتر آخری ورکنگ ڈے ہوگا۔ قربانی کے جانور اتنے مہنگے ہیں کہ ایک محنت کش فکسڈ آمدنی والے شہری کی قوت خرید سے بہت باہر ہیں۔ تازہ ترین قومی اور عالمی امور پر ایک تجزیہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔بھارتی کانگریس پارٹی کو راہول گاندھی کی شکل میں ایک جواں سال متحرک قسم کا لیڈر مل چکا ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ اب اس کی نشاۃ ثانیہ کا عمل شروع ہو گیا ہے بی جے پی کو نریندرا مودی اور اس کا انتہا پسند حواریوں کا ٹولہ سیاسی طور پر لے ڈوبا ہے‘ اقتدار میں تو شاید وہ رہ سکیں پر لوک سبھا میں اب ان کی وہ اکثریت نہیں ہوگی کہ جو پہلے تھی اور حکومت چلانے کے واسطے انہیں چھوٹے چھوٹے سیاسی گروپوں کی بیساکھیوں کی بھی وقتاً فوقتاً ضرورت ضرور پڑے گی‘ اس دوران یعنی آئندہ الیکشن تک راہول گاندھی کو کافی وقت مل جائے گا کہ وہ اپنی سیاسی پارٹی کو مکمل طور پر فعال کر سکیں‘ راہول گاندھی نے اگر وہ سیاسی غلطیاں نہ دہرائیں جو ان کی دادی اندرا گاندھی نے کی تھیں تو ان کا سیاسی سفر کامیاب ہو سکتا ہے کیونکہ سر دست بھارت کے سیاسی اکھاڑے میں کوئی ایسی قد آ ور شخصیت نظر نہیں آ رہی جو ان کو مات دے سکے۔ وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف کے حالیہ دورہ چین کو ہر لحاظ سے کامیاب دورہ قرار دیا جا سکتا ہے‘کیونکہ اس کے دوران 32 ایم او یوز پر دستخط ہوئے‘جن کے تحت توانائی آٹو موبائل‘ آئی ٹی‘ ادویہ سازی کے شعبوں میں تعاون ہو گا۔یہ امر خوش آئند ہے کہ چینی کمپنیاں پاکستان میں الیکٹرک بائیکس اور جدید زراعت میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتی ہیں‘ اب ان ایم او یوز کو فوراً سے پیشتر عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے 
۔بلاول بھٹونے یہ کہہ کر ارباب اقتدار کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے کہ میرے ارکان اسمبلی ٹرانسفر پوسٹنگ کی سیاست بند کر دیں‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک عرصہ دراز سے وطن عزیز میں بعض ارکان اسمبلی اپنے اپنے علاقوں میں تھانیدار سے لیکر ایس پی پولیس تک‘ پٹواری سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک کی آسامیوں پر اپنے منظور نظر افراد کی تعیناتی کیلئے سفارشیں کرتے ہیں۔ آ ئیے اب ذرا انقلاب فرانس کے بارے میں چند حقائق کا ذکر کرلیں جو یقیناً قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوں گے‘انقلاب فرانس کوئی چھوٹا موٹا انقلابی واقعہ نہ تھا بلکہ ایک عظیم کارنامہ تھا جس نے دور و نزدیک کے سبھی ملکوں کی سیاسی معاشی تہذیبی اور سماجی زندگی کی کایا پلٹ دی‘ اس کے پرچم پر آزادی مساوات اور اخوت کے زریں الفاظ لکھے ہوئے تھے یہ دوسری بات ہے کہ ان نعروں سے سرمایہ داروں کامنشاعوام کی خواہش سے بہت مختلف تھا‘سرمایہ داروں کے نزدیک مساوات سے مراد ان جاگیر داری مراعات کا خاتمہ تھا جن سے نواب اور جاگیرداری مستفید ہوتے تھے اور آزادی سے مراد ان پابندیوں کا خاتمہ تھا جو صنعت اور تجارت کی راہ میں حائل تھیں‘ اس کے باوجود انقلاب فرانس کے عہد آفریں تاریخی کردار سے کوئی انکار نہیں کر سکتا‘فرانس کے فکری انقلاب میں جو دانشور پیش پیش تھے ان کا ذکر اس مرحلے پر بے جا نہ ہوگا ان میں روسو کا نام سر فہرست ہے۔ ذاتی ملکیت جاگیرداری نظام اور کلیسائی نظام کا دشمن تھا‘ اس کے نزدیک تمام برائیوں کی جڑ ذاتی ملکیت بالخصوص زمین کی ذاتی ملکیت ہے روسو کی کتاب معاہدہ عمرانی انقلاب فرانس کی انجیل کہلاتی ہے۔ وطن عزیز کے تمام صوبوں میں یونیورسٹیوں کی تعداد  میں اضافہ تو ہوا ہے پر سوال یہ ہے کہ کیا جو تعلیم وہ فراہم کر رہی ہیں اس کے معیار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے یا نہیں‘ اس کا جواب نفی میں ملتا ہے‘ وطن عزیز کی شاید ہی کوئی ایسی یونیورسٹی ہو کہ جس کا شمار تعلیمی لحاظ سے دنیا کی چند بہترین درسگاہوں میں ہوتا ہو اور یہ بات اس ملک کے تمام علم دوست محبان وطن کے واسطے ایک لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے کوئی بھی اس کی وجہ ہو اس پر متعلقہ حکام بالا کو سنجیدگی سے غور کر کے اس کا حل نکالنا بہت ضروری ہے۔