ہماری زمین ہمارا مستقبل

عالمی یوم ماحولیات منانے کا مقصد کرۂ ارض کو درپیش ماحولیاتی چیلنجز اجاگر کرنا ہے تاکہ ماحول کی بہتری کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس بارے میں آگاہی پیدا کی جا سکے۔ رواں برس اس عالمی دن کا موضوع ہماری زمین ہمارا مستقبل رکھا گیا ہے جس میں ریگستان جنگلات کی کٹائی زمین کے انحطاط ہم زمین جانداروں کے معدوم ہونے اور آبی ذخائر کی آلودگی جیسے نقصانات و خطرات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ ہماری زمین ہماری بقاء کا واحد ذریعہ ہے جو خوراک پانی ہوا اور پناہ فراہم کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کے کنونشن فار کمبیٹ ڈیزرٹیفیکیشن کے مطابق کرہ ارض کی چالیس فیصد زمین خراب ہو چکی ہے جس سے دنیا کی نصف آبادی براہ راست متاثر ہو رہی ہے۔ پاکستان کو صحرائیت اور زمین کے انحطاط کے چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ ان ماحولیاتی چیلنجوں کی متعدد وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے آبادی میں اضافہ اس کے وسائل پر بوجھ ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے فصلیں اگانے اور اس بڑی آبادی کو کھلانے کیلئے زراعت کیلئے مزید زمینوں کو صاف کیا جا رہا ہے۔ زرعی مقاصد کیلئے زمین کا زیادہ استعمال زمین کو اس کے غذائی اجزاء سے محروم کر رہا ہے۔ حشرہ کش دواؤں کا غیرضروری اور حد سے زیادہ استعمال مٹی کے اجزاء کی بحالی کے قدرتی عمل میں خلل ڈال رہا ہے اور زمین کے صحرائی ہونے اور اس کے انحطاط کا باعث بھی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کیلئے مزید ہاؤسنگ سوسائٹیاں تعمیر کی جا رہی ہیں اور جنگلات کاٹے جا رہے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی کے نتیجے میں صحرائیت اور زمین کے انحطاط میں اضافہ یقینی امر ہوگا۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کے مطابق پاکستان کے کل رقبے کا پانچ فیصد سے بھی کم حصہ جنگلات ہیں اور ان جنگلات میں سے ڈیڑھ فیصد ہر سال ختم ہو جاتے ہیں۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے مطابق آبادی میں اضافے کی بلند شرح جنگلات کے رقبے کے اعداد و شمار کو مزید کم کر رہی ہے۔ جنگلات کا احاطہ ختم ہونے کی وجہ سے کئی قیمتی جانداروں کی اقسام خطرے میں ہیں اور ماحولیاتی نظام کیلئے بھی خلل کا باعث ہے۔ اسی طرح آب و ہوا کی تبدیلی پاکستان میں ریگستانی اور انحطاط کی بڑی وجہ ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ممالک میں شامل ہے۔ ہیٹ ویو سموگ اور سیلاب یہاں اکثر آتے رہتے ہیں۔ سیلاب مٹی سے اہم غذائی اجزاء لے جاتے ہیں اور اس کی زرخیزی کم کرتے ہیں۔ اسی طرح اسموگ کی وجہ سے تیزابی بارش ہوتی ہے جو مٹی کی پی ایچ ویلیو کو تبدیل کرتی ہے۔ زمین کی بحالی کیلئے ایک اور اہم چیلنج عوام میں شعور کی کمی اور زیادہ سے زیادہ وسائل پر قبضہ کرنے کا لالچ ہے۔ علم اور مالی وسائل کی کمی بھی عام لوگوں کیلئے زمین کی بحالی کے طریقوں کو اپنانے میں رکاوٹ ہے۔ پاکستان زمین کی بحالی کیلئے کئی ایک اقدامات کر سکتا ہے۔ حکومت کو ایسی پالیسیاں اختیار کرنی چاہئیں جو پائیدار زمین کے انتظام اور پانی کے تحفظ کو فروغ دیں۔ سب سے پہلے ہمیں جنگلات کی کٹائی کم کرنا ہوگی۔ ہاؤسنگ اسکیموں کو اس وقت تک منظور نہیں کیا جانا چاہئے جب تک کہ ان کا کم از کم پانچ فیصد علاقہ درختوں سے ڈھکا ہوا نہ ہو۔ کھوئے ہوئے جنگلات کو بحال کرنے کیلئے عمودی باغبانی کے خیال کو فروغ دیا جانا چاہئے۔ جنگلات کی کٹائی پر فوری پابندی عائد کی جانی چاہئے اور اسے روکنے کیلئے سخت قوانین نافذ کئے جانے چاہئیں۔ حشرہ کش دواؤں کا استعمال کم کرنے کیلئے نامیاتی خوراک کے رجحان کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ خوراک کی افزائش نقل و حمل اور برآمد کے تمام مراحل میں خوراک کے ضیاع کو کنٹرول کیا جائے تاکہ زرعی مقاصد کیلئے زمین کے استعمال کو کم کیا جا سکے۔ اس سے نہ صرف فصلوں کی افزائش کیلئے استعمال ہونے والے پانی کی بچت ہوگی بلکہ زرعی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے کاربن کے اخراج میں بھی کمی آئے گی۔ زراعت کے شعبے میں جدید تکنیک اور ٹیکنالوجی کو اپنانے سے زمین کو ریگستان بننے اور اسے انحطاط سے بچایا جاسکتا ہے تاہم جدید ٹیکنالوجیوں کو اپنانے کیلئے اسٹیک ہولڈرز کی تربیت اور ٹیکنالوجی فراہم کرنے کیلئے مالی وسائل کی بھی ضرورت ہے۔ اسی طرح چھوٹے ڈیموں کی تعمیر سے سیلاب کے پانی کو محفوظ اور ضائع ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔ ہمارے گھریلو استعمال میں پانی کے پائیدار استعمال کی عادت ایک اور اہم حل ہوسکتا ہے۔ مزید برآں پاکستان میں زمین کے صحرائی ہونے اور انحطاط سے متعلق مسائل کا مقامی حل تلاش کرنے کیلئے مقامی سطح پر تحقیق کی جانی چاہئے۔ طلبہ کیلئے تعلیم کے مواقع کھولنے کیلئے سکالرشپس اور ریسرچ گرانٹس کی شکل میں اس شعبے میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ہماری زمین ہمارا مستقبل ہے۔ اسے صحرا اور انحطاط سے بچانے کیلئے ہر سطح پر کوششیں ہونی چاہئیں۔ اب یہ اہل زمین پر منحصر ہے کہ یہ کس طرح مناسب اقدامات کرتے ہیں تاکہ ماحول کی بحالی کے حوالے سے عائد ذمہ داریاں پوری کی جا سکیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ظل ہما۔ ترجمہ ابوالحسن امام)