آب وہوا کا بحران: خطرات درخطرات

سیلاب سے لے کر گرمی کی مسلسل لر (ہیٹ ویو) اور شدید خشک سالی تک‘ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں جیسے خطرات در خطرات کا سامنا کر رہا ہے۔”جب آخری درخت کاٹ دیا جائے گا‘ آخری مچھلی پکڑی جائے گی اور آخری نہر کو زہر آلودہ کر دیا جائے گا‘ تب ہی ہمیں احساس ہوگا کہ ہم صرف غیرپائیدار ترقی اور پیسوں کے سہارے زندہ نہیں رہ سکتے۔ موسمیاتی تبدیلی تلخ حقیقت ہے جس سے پاکستان نبرد آزما ہے۔ حال ہی میں منایا گیاعالمی یوم ماحولیات‘ ہمیں اِس بات کی یاد دلا رہا ہے کہ موسمیاتی چیلنجوں کا مقابلہ کرنا اور شہری ترقی اور ماحولیاتی انتظام پر نظر ثانی کرنا کس قدر ضروری ہو چکا ہے۔پاکستان کے شہری علاقوں میں آبادی بڑھنے کی شرح میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے‘ سال دوہزارتیئس کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں شہری آبادی بڑھ کر 38فیصد سے زیادہ ہوگئی ہے جبکہ دوہزارسترہ سے دوہزارتیئس کے درمیان شہری آبادی میں سالانہ 3.57فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس تیزی سے شہری توسیع‘ جو اکثر غیر منصوبہ بند اور ناقص انتظام کیا جاتا ہے‘ نے آب و ہوا سے متعلق آفات کے لئے شہری علاقوں کے خطرے میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ سال دوہزاربائیس کے تباہ کن سیلاب نے تین کروڑ تیس لاکھ افراد کو متاثر کیا اور ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا‘ غلط انتظام شدہ شہری ترقی کے سنگین نتائج کا یہ ایک واضح اشارہ ہے۔ یہ بے لگام ترقی اکثر سیلابی علاقوں اور سرسبز مقامات پر دیکھنے میں آتی ہے‘ جس سے شہری علاقوں کو سیلاب‘ خشک سالی اور ہیٹ ویو کا زیادہ خطرہ رہتا ہے جبکہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر بھی اس بحران میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عالمی سطح پر‘ صنعت کل عالمی اخراج کا تقریباً چالیس فیصد ہے‘ جو حیرت انگیز اعداد و شمار ہیں اُور جو ماحولیاتی اثرات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ پاکستان میں منافع کے مقاصد کی بنیاد پر بے لگام ترقی کی وجہ سے ماحول دشمن انفراسٹرکچر کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ عمارتیں اور سڑکیں پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں جس سے سیلابی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ شہروں میں سرسبز مقامات کی کمی کی وجہ سے گرمی کے دباؤ میں الگ سے اضافہ ہوتا ہے‘ جس سے شہری علاقے ہیٹ ویو کے دوران تقریباً ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر‘ سال دوہزارتیئس کے موسم گرما میں پاکستان کے کئی شہروں میں درجہ حرارت پینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا‘ جس سے صحت عامہ کو شدید خطرات لاحق ہوئے۔ اب سال دوہزارچوبیس میں ایک بار پھر پاکستان کو ہیٹ ویو کا سامنا ہے اور ملک کے کئی حصوں میں درجہ حرارت موسم گرما کے آغاز پر ہی پچاس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے۔ سیلاب کی پیش گوئی کرنے والے ماڈلز اور سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ ملک کو ایک بار پھر شدید سیلاب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کسی زمانے میں بنیادی طور پر دریائی سیلاب کا سامنا کرنے والا پاکستان اب زیادہ تر شہری سیلابوں کا سامنا کر رہا ہے‘ جو شہری منصوبہ بندی کے فقدان کا منہ بولتا ثبوت ہے اور ماحولیاتی لاپرواہی کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔ سال دوہزاربائیس کے سیلاب کے دوران سوات میں دیکھا گیا کہ دریاؤں کے راستے میں تجاوزات قائم ہیں جس کی وجہ سے ہوٹل اور سڑکیں مکمل طور پر ڈوب گئیں۔ اسی طرح کراچی کو شدید شہری سیلاب کا سامنا کرنا پڑا اُور شہر کے کئی حصوں میں پانی گھنٹوں نہیں بلکہ کئی دنوں تک کھڑا رہا۔ پانی کے قدرتی بہاؤ کے راستے میں تجاوزات مسائل کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں اور ان سے جانی و مالی نقصانات ہو رہے ہیں۔ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان شدید موسمی واقعات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے سرفہرست دس ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان میں شہری آب و ہوا کی بہتری اور برداشت کو بڑھانے کے لئے کلائمیٹ رسک انشورنس پالیسیوں کو مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ انشورنس بنیادی ڈھانچے اور پائیدار شہری ترقی میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرسکتا ہے۔ ڈویلپرز اور پالیسی ساز‘ جانتے ہوئے کہ ان کے پاس آب و ہوا سے متعلق نقصانات کے لئے انشورنس کوریج ہے‘ آب و ہوا کے موافق سمارٹ ہاؤسنگ اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو ترجیح دینے کی طرف مائل ہوسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ‘ حکومت پاکستان اور وزارت موسمیاتی تبدیلی (ماحولیاتی رابطہ) کی جانب سے شروع کئے جانے والے اقوام متحدہ کے لیونگ انڈس انیشی ایٹو جاری ہیں۔ اس اقدام کا مقصد دریائے سندھ کی ماحولیاتی تنوع کو بحال کرنے کے لئے اقدامات اور اِنہیں مستحکم کرنا ہے کیونکہ یہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نسبتاً زیادہ متاثر ہیں چونکہ دریائے سندھ کے کنارے ماحولیاتی نظام زوال پذیر ہے تو فیصلہ سازوں کے سامنے یہ سوال بطور چیلنج موجود ہے کہ اگلی صدی تک اِسے کیسے برقرار رکھا جا سکے گا؟ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر زینب نعیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)۔۔۔۔۔۔