تعلیم ترقی کی بنیاد نہیں رہی؟

یونیورسٹی اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین کے مطالبے کی یہ گردان بالآخران سنی ہوگئی کہ سالانہ بجٹ یا اخراجات میں 60فیصد حکومت فراہم کرے جبکہ40 فیصد کا بندوبست جامعات اپنے ذرائع سے کرینگی حکومت نے مطالبہ سننے اور اس پرعملدرآمد کی بجائے تعلیم کو یکسر بجٹ سے ہی نکال باہر کر دیا‘ وفاقی حکومت نے تعلیمی بجٹ کو65ارب سے گھٹا کر محض 25 ارب کردیا جبکہ صوبے کے تعلیمی بجٹ جو کہ ساڑھے تین سو ارب سے زائد بتایا جاتا ہے میں اعلیٰ تعلیم یعنی یونیورسٹیوں کا ذکر تک نہیں‘ وفاقی حکومت نے تو یہ جواز اٹھاتے ہوئے گزشتہ سال سے یکے بعد دیگرے تین مرتبہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن اسلام آباد کے توسط سے صوبے کی جامعات کو مراسلے کے ذریعے آگاہ کیا کہ چونکہ18ویں آئینی ترمیم کے تحت اعلیٰ تعلیم بھی اب صوبوں کے پاس ہے لہٰذا وفاقی حکومت سے کسی قسم کی مالی سرپرستی یعنی فنڈنگ اور گرانٹ وغیرہ کی توقع مت رکھیں بلکہ صوبائی حکومت پر زور دیں کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داری نبھائے مگر بدقسمتی سے ہوا کچھ یوں کہ یونیورسٹی ملازمین نے گزشتہ تین سال کے دوران اپنی تیسری 60روزہ تالہ بندی اور دھرنا احتجاج میں محض”گو وی سی گو“ پر اکتفا کیا حالانکہ یہ کوئی ایسا ویسا معمولی مسئلہ نہیں کہ محض نعرہ بازی یا تالہ بندی سے حل ہو جائے‘ یونیورسٹی ملازمین کی تالہ بندی اور بذریعہ سڑک بندی کے دوران تعلیم کے کئی بہی خواہ کئی باران کے پاس آئے اور نہایت مخلصانہ مشورہ دیتے رہے کہ چونکہ تعلیم ریاست یا حکومت کے ذمے عوام کا ایک بنیادی حق ہے اور ساتھ ہی بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں میں جو اضافہ ہوا ہے وہ بھی قانونی حق کی حیثیت رکھتا ہے لہٰذا کرنے کاکام یہ ہے کہ اپنے قانونی حق سے حکومت کے ہاتھوں محرومی کی فریاد لیکر ملک کی سب سے بڑی عدالت پہنچ جائیں تاکہ مسئلہ آئینی تقاضوں کے مطابق قانونی طورپر حل ہو سکے مگر کیا کہیں کہ جذباتی ملازمین اور ان کے جوشیلے مقررین یا منتظمین نے مناسب اور درست طریقہ کار اپنانے کی بجائے کام بندی شور شرابے اور مسئلے کے وقتی حل پر اکتفا کیا اور مسئلہ جوں کا توں رہ گیا‘ اب بھی وقت ہے کہ اس بنیادی بلکہ سنگین مسئلے کو قانونی طورپر اعلیٰ سطح پر اٹھایا جائے اور ریاست کے سامنے یہ سوال رکھا جائے کہ آیا پاکستان کو تعلیم کی ضرورت نہیں رہی؟ کیونکہ حکومت نے اپنے بجٹ میں تعلیم کو جس قدر نظر انداز کر دیا ہے اس سے تو یہی معنی اخذ کئے جا سکتے ہیں کہ پاکستان تعلیم میں خود کفیل ہوگیا ہے‘ صوبے کی سب سے بڑی اور قدیم درسگاہ کے ماہانہ اخراجات جو کہ گزشتہ دو چار سال سے40کروڑ تھے اب اگر مالی سال 2024-25 میں تنخواہوں اور پنشن وغیرہ میں مزید اگر معمولی سا اضافہ بھی کیا جائے توچوالیس پینتالیس کروڑ ہو جائیں گے‘اب سوال یہ ہے کہ یہ پیسہ کہاں سے آئے گا اور اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟ جہاں تک جامعہ پشاور اور ساتھ ہی دوسری قدرے پرانی یونیورسٹیوں کے اپنے ذرائع آمدن یعنی مالی پوزیشن کا تعلق ہے تو ایک تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ گزشتہ سال سے قرضے لیکر تنخواہیں اور پنشن کی ادائیگی کر رہی ہیں‘معلوم ہوا ہے کہ پرانی جامعات نے مئی کی تنخواہیں اور پنشن تو بمشکل دیدی ہیں لیکن جون کے لئے مالی وسائل کے فقدان کا رونا ابھی سے رو رہی ہیں‘ ایسے میں وفاقی حکومت نے صوبے کی جامعات کو اپنی فہرست ہی سے نکال باہر کر دیا‘جبکہ صوبے کے بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کا ذکر تک نہیں‘مطلب وہ وقت آپہنچا کہ تعلیم و تربیت یعنی جامعات کو چلانے کیلئے ایک والی وارث کی ضرورت پیش آئی‘اب بیڑا کون اٹھائے گا؟ اس بارے میں ملک کی سیاسی اور معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کچھ نہیں کہا جا سکتا‘غور طلب امر یہ ہے کہ اگر حکومت اس حقیقت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ تعلیم ریاست کے ذمے عوام یا رعایا کا بنیادی حق ہے یا حکومت اس ضرورت کو نجکاری کے ذریعے پورا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو پھروقت ضائع کئے بغیر اگلا قدم اٹھانا چاہئے۔