ماحولیاتی تبدیلی کے بچوں سے مشقت پر اثرات

رواں برس سال ’چائلڈ لیبر (بچوں سے مشقت)‘ سے متعلق عالمی کنونشن (خصوصی قواعد) کی پچیسویں سالگرہ منائی جا رہی ہے جو پہلا عالمی آئی ایل او کنونشن ہے اور اگرچہ کئی ممالک نے اس کی توثیق کر رکھی ہے لیکن بچوں سے محنت مشقت (مزدوری) سے متعلق دو بنیادی آئی ایل او کنونشنز‘ 182 اور کنونشن نمبر 138 پر عمل درآمد پر زور دیا جا رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں چائلڈ لیبر پیچیدہ اور کثیرالجہتی مسئلہ ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں مجموعی طور پر پندرہ کروڑ بیس لاکھ بچے جن میں چھ کروڑ چالیس لاکھ لڑکیاں اور آٹھ کروڑ اَسی لاکھ لڑکے شامل ہیں‘ چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتے ہیں‘ بچوں سے محنت مشقت کی وجہ سے وہ اپنے بچپن سے محروم ہو جاتے ہیں اور ان کی صلاحیتیں بھی محدود ہو جاتی ہیں۔ یونیسیف نے حال ہی میں اندازہ لگایا ہے کہ دنیا بھر میں چوبیس کروڑ ساٹھ لاکھ سے زیادہ بچے مزدور ہیں۔ یہ تخمینہ خوفناک حقیقت کی عکاسی کر رہا ہے‘ جس میں تقریبا تینتیس لاکھ بچے محنت مشقت کے شیطانی چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ شدید گرمی میں خطرناک کانوں میں کام کرنے‘  قالین بافی یا اینٹوں کے بھٹوں پر محنت کرنے پر مجبور ہیں۔ زراعت‘ گھریلو کام کاج اور سڑکوں پر اشیاء کی خرید و فروخت جیسے کام کرتے ہیں جو اضافی تلخ حقائق کی نمائندگی ہے اور اِس سے بچوں کو جسمانی اور ذہنی صدمے‘ سست نشوونما اور محدود مواقع کا سامنا رہتا ہے۔ یہ سرگرمیاں بچوں کو ان کے بچپن سے محروم کر دیتی ہیں‘ صحت اور تعلیم تک رسائی میں رکاوٹ ڈالتی ہیں اور انہیں غربت اور محرومی کے وحشیانہ کھیل میں دھکیل دیتی ہیں۔ پنجاب‘ جو کہ بدقسمتی سے چائلڈ لیبر کے حیران کن اعداد و شمار میں بلند ترین ہے‘ میں پانچ سے سترہ سال کی عمر کے 13.4 فیصد بچے چائلڈ لیبر میں مصروف ہیں‘ جو سال دوہزارچودہ میں ریکارڈ کردہ سولہ فیصد سے کم ہے تاہم اِس مسئلے کا صرف ایک حصہ ہے جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ تازہ ترین اور درست اعداد و شمار نے ہمیشہ سرکاری اور نجی دونوں جواب دہندگان کے لئے مشکل کھڑی کی ہے۔ پنجاب چائلڈ لیبر سروے (پی سی ایل ایس) 2019-20ء میں کیا گیا۔ خیبر پختونخوا چائلڈ لیبر سروے (کے پی سی ایل ایس) جنوری سے اکتوبر 2022ء میں کیا گیا جس میں صوبے کے بتیس اضلاع اور نئے ضم شدہ اضلاع (این ایم ڈیز) بھی شامل ہیں۔ یہ سروے صوبے میں بچوں اور نوعمروں کے حالات زندگی کے بارے میں ہے‘ جس میں ان کی روزمرہ کی سرگرمیوں جیسا کہ سکول‘ کاروباری کام کاج‘ گھریلو کام کاج اور تفریح وغیرہ جیسی سرگرمیاں شامل کی گئیں تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ کسی بھی دستاویز میں آب و ہوا کی تبدیلی کو اہم عنصر نہیں سمجھا گیا جو ملک میں چائلڈ لیبر کی صورتحال کو خراب کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا  ہے۔مسلمہ حقیقت ہے کہ بچوں کو آبادیاتی گروہوں میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے جو آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والے نظامی خلل کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) کی سال دوہزاربائیس میں چھٹی تشخیصی رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ آب و ہوا کی تبدیلی سے پیدا ہونے والے واقعات بچوں کی تعلیم کے حصول پر مضر اثرات مرتب کرتے ہیں‘ جس سے انہیں چائلڈ لیبر‘ خطرناک پیشوں اور جبری نقل مکانی کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والی غربت اور غذائی قلت انسانی حقوق کی صورتحال کو مزید خراب کر رہی ہے اور بچوں کی مزدوری میں اضافے کا باعث ہے۔ یہ گٹھ جوڑ زراعت اور اس کے ذیلی شعبوں کے لئے بالخصوص اہم ہے‘ جو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق آفات کے معاشی اثرات کا چھبیس فیصد ہیں۔سال دوہزاردس کے سیلاب کے بعد‘ کی گئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بچوں کی مزدوری میں اضافہ ہوا ہے‘ خاص طور پر بھیک مانگنے والے بچوں کی تعداد پہلے سے زیادہ ہوئی ہے تاہم سال دوہزار بائیس کے سیلاب کے بعد اعداد و شمار جمع نہیں کئے گئے۔ سال دوہزاربائیس کے سیلاب نے بچوں پر یکساں منفی اثرات مرتب کئے ہیں اور بچوں کی بڑی تعداد والدین کے قرض ادا کرنے کے لئے گھریلو غلامی پر مجبور ہوئی ہے۔ رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں ایسے گھریلو ملازمین جنہیں ”بندھوا مزدور“ بھی کہا جاتا ہے میں تقریباً ستر فیصد بچے ہیں۔ دوہزاربائیس کے سیلاب کے بعد چائلڈ لیبر کے واقعات میں اضافے کے ثبوت جمع کرنے خاطرخواہ کوششیں نہیں کی گئیں لیکن متاثرہ علاقوں میں بچوں کی تعلیم تک رسائی‘ خاندانوں کی صحت کی تنزلی اور معاشی مشکلات پر اثرات کو ظاہر کرنے والے ٹھوس اعداد و شمار موجود ہیں۔ یہ صورتحال والدین کو مجبور کرتی ہے کہ وہ بچوں کو سکول جانے کے بجائے کام پر بھیجنے کو ترجیح دیں۔بچوں سے مشقت کے خاتمے اور اِس سے نمٹنے کے لئے ’سیاسی عزم‘ کی ضرورت ہے۔ جسمانی‘ نفسیاتی‘ جنسی‘ معاشی اور آب و ہوا کی تبدیلی کے بچوں پر اثرات کے حوالے سے قوانین موجود ہیں جو بچوں پر تشدد اور استحصال کو روکنے میں صرف اُسی صورت کامیاب ہوں گے جبکہ اُن پر عمل درآمد کیا جائے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر رضا حسین قاضی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)


پاکستان نے بچوں کے حقوق کے عالمی کنونشن (سی آر سی) کو تسلیم کیا ہے اور اِس کنونشن کی توثیق کے تیس سال ہو چکے ہیں لیکن مربوط چائلڈ پروٹیکشن کیس مینجمنٹ اور ریفرل سسٹم قائم نہیں کیا جا سکا ہے۔ ہر سطح پر نصاب میں بچوں کے تحفظ کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ آب و ہوا اور بچوں کے حقوق کے بحران سے نمٹنے کے لئے بچوں کے کردار کو مساوی اسٹیک ہولڈرز کے طور پر تسلیم کرنا ضروری ہے۔ سماجی تحفظ کے نظام کو بڑھانا اور انہیں اور کمیونٹیز کو پالیسی مباحثے میں شامل کرنا بچوں اور خاندانوں پر آب و ہوا کے منفی اثرات کم کرنے کے لئے اہم و ضروری ہے۔