دریاؤں کا انجام تک پہنچنا؟

روزنامہ آج میں شائع ہونے والے بعض کتابوں سے اقتباس کیلئے قارئین کی جانب سے دوبارہ اشاعت کا کہا جاتا ہے‘ قارئین کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کا شائع ہونے والا اقتباس مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی کے نشر پروگرام کا منتخب حصہ ہے جو کہ قارئین کیلئے پیش خدمت ہے‘دریا اورسمندر کا ملاپ واقعی اہم منظر ہوتا ہے ایسے ہی دریا کے ایک انجام کا منظر معروف صحافی رضا علی عابدی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جیپ اب کھاروچھان کی طرف دوڑ رہی تھی۔ علاقے کے سرگرم سوشل ورکر عبدالعزیز بھی ہمارے ساتھ ہو لیے۔ وہ بتا رہے تھے کہ اب آپ دریا کے میٹھے پانی کو سمندر کے کھارے پانی سے ٹکر لیتے دیکھیں گے۔ یہ منظر دیکھنے کا میرااشتیاق اب زور مارنے لگا۔ میں ہزار میل دور لداخ میں اسی دریائے سندھ کا لڑکپن دیکھ کر آ رہا تھا۔ اب اس کا انجام دیکھوں گا تو خدا جانے میرے دل کا کیا حال ہو گا۔ہماری جیپ پہلے ایک پکی سڑک پر اور پھر کچی سڑک پر دوڑی۔ اس کے بعد پہلے والی گاڑیوں کے پہیوں کے نشان رہ گئے۔ ہوا کی بو سے محسوس ہوا کہ سمندر قریب ہے مگر وہ سمندر کی نہیں‘ ان گہرے سیاہ اور پانی سے لدے ہوئے بادلوں کی بوتھی کہ پنجوں پر اونچے ہو کر ہاتھ اٹھائیں تو بیچ کی انگلی انہیں چھولے۔ میں نے کہا کہ اگر یہ بادل برس گئے تو کیا ہو گا؟ عبدالعزیز بولے:خدا نہ کرے۔ ہماری گاڑی دلدل میں دھنس جائے گی اور اسے نکالنے کیلئے توانابیل منگواناپڑیں گے۔ کسی نے ڈرتے ڈرتے اور میری مایوسی کا قیاس کرتے ہوئے پوچھا۔ کیا خیال ہے‘ واپس چلیں؟ جس طرح چینی تبت میں اس جگہ کا نظارہ میری قسمت میں نہیں تھا جہاں یہ دریا چشمے کی شکل میں زمین سے پھوٹتا ہے۔ اس طرح وہ مقام دیکھنا بھی میرے مقدر میں نہیں تھا جہاں دنیا کا ہر دریا اپنے انجام کو پہنچتا ہے‘ ہم واپس لوٹے اور وہی بادل جو ہمارے سروں کو چھونا چاہتے تھے اونچے ہوتے ہوتے ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ رات ہو گئی تھی اور گاڑھو کے پیروزانی گھرانے والے اصرار کر رہے تھے کہ یہیں ان کے مہمان خانے میں سورہے۔ صبح تڑکے چلے جائیے گا لیکن بوٹو بھائی مصر تھے کہ ان لاڈیوں چلتے ہیں‘ سویرے وہیں سے شاہ بندر چلے جائیں گے۔شاہ بندر کار نام میرے نقشے پر اور مری ڈائری میں جلی حروف میں لکھا تھا‘ شہزادہ اورنگزیب کی بنوائی ہوئی یہ بندرگاہ نہ دیکھی تو کچھ بھی نہ دیکھا میرا اضطراب بڑھتا جا رہا ہے‘بوٹوبھائی ہوتے تو پوچھتے کتنے مینڈک؟خدا خدا کرکے گوٹھ محمد یوسف چانڈیو آیااس وقت رات کے ڈھائی بجے اور میں اس خیال سے شرمندہ تھا کہ اب وڈیرہ رئیس خان چانڈیو کی حویلی کے دروازے پیٹ پیٹ کرانہیں جگانا پڑیگا۔ بوٹو بھائی میری پریشانی کو بھانپ گئے اوربولے کہ آپ دیکھتے جائیے۔انہوں نے جیپ ایک عمارت کے سامنے روکی جو کسی ریلوے سٹیشن کے درجہ اول کے مسافر خانے جیسی نظر آئی۔ اس کے کمرے کھلے ہوئے تھے ان میں ہلکے ہلکے بلب روشن تھے۔ اندر جا کر دیکھا چارپائیاں آراستہ تھیں جن پربستر لپٹے ہوئے رکھے تھے وہ اس گاؤں کااوطاق یعنی مہمان خانہ تھا ہم نے چارپائیاں باہرکھینچیں اور ایک بہت بڑے درخت کے نیچے بستر لگا کر سو گئے۔