آج سے کئی برس پہلے بھارتی حکمرانوں نے اسرائیلی حکمرانوں سے مشورہ مانگا تھا کہ انہوں نے فلسطینیوں کی آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو کیسے کچلا ہے لہٰذا ہمیں کل یہ خبر پڑھ کر کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ چند روز قبل مقبوضہ کشمیر میں مبینہ دہشت گردی کے واقعے کے بعد اسرائیلی اہلکار متعلقہ تکنیکی سامان کے ساتھ سری نگر پہنچ گئے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل بھارت کو ٹیکنیکل سامان بھی فراہم کر رہا ہے اور مشورے بھی دے ر ہا ہے کہ کس طرح کشمیری جنگجو جوانوں کو کچلا جائے نیتن یاہو اور نریندرا مودی میں قدرے مشترک یہ ہے کہ یہ دونوں مسلمانوں کے کٹر دشمن ہیں اور ہٹلر کے پیروکار ہیں۔ ایران نے پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ تنازعہ کو حل کرنے کے لئے جو ثالثی کی پیش کش کی ہے حکومت کا اس پر مثبت ردعمل آ نا ضروری ہے۔ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی اور نواز لیگ نے اچھا کیا جو سندھ اور پنجاب کی نہروں میں پانی کی تقسیم کے حوالے سے تنازعے پر بیان بازی بند کر کے اس معاملے کو مشترکہ مفادات کی کونسل کے حوالے کر دیا جو اگلے ماہ کی دو تاریخ کو اپنے اجلاس میں اس کا فیصلہ کرے گی۔ پاکستان اور بھارت دونوں اٹیمی قوتیں ہیں کہ خدا نہ کرے اگر ان میں جنگ چھڑ جاتی ہے تو اس کی ہولناکی کا تصور کر کے ہی انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ عالمی درجہ حرارت دس ڈگری کم ہو سکتا ہے زراعت کی تباہی سے 3 ارب افراد بھوک سے مر سکتے ہیں۔یہ بات قابل افسوس ہے کہ امریکی صدر کشمیر کی تاریخ سے نا بلد ہیں اپنے ایک حالیہ بیان میں انہوں نے اسے ڈیڑھ ہزار سال پرانا قرار دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ یا تو ان کے مشیروں نے ان کی اس مسئلہ پر درست بریفنگ نہیں کی اور یا ہمارے حکمرانوں نے انہیں اس مسئلے کے خدو خال سمجھانے میں کوئی ٹھوس قدم اٹھایا ہے۔دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں پر جو اٹیم بم گرائے تھے ان کی وجہ سے ہیروشیما میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب اور ناگا ساکی میں 74000 ہزار لوگ ہلاک ہوئے تھے بات یہاں پر ختم نہ ہوئی اور ایک لمبے عرصے تک وہاں لاکھوں لوگ کینسر کا شکار ہو کر مرتے رہے‘ پاکستان کو اقوام متحدہ اور ورلڈ بنک کے حکام کے ذریعے بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ جو قدم بھی اٹھائے وہ سندھ طاس منصوبے کے معاہدے میں درج شرائط کے مطابق اٹھائے اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان پر پانی بند کر کے بھارت وطن عزیز کی اراضی کو بنجر بنانے کے اپنے مذموم ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی طرف پہلا قدم اٹھا چکا ہے۔دنیا میں کسی کام کے بھی انسان کو ثمرات نہیں ملتے اگر ان کے حصول کے واسطے محنت کر کے پسینہ نہ بہامحنت کو رائیگاں نہیں کرتا قدرت کا ایک قانون یہ بھی ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں میانہ روی اختیار کی جائے‘اگر آپ بسیار خوری کریں گے تو بیمار پڑ جائیں گے‘ ایک اور دوسرے کھانے کے درمیان کم ازکم سات گھنٹوں کا وقفہ ضروری ہے کیونکہ انسانی معدے کو بھی تو آرام کا موقع درکارہوتا ہے‘انتہا پسندی سے معاشرے میں طرح طرح کے مسائل جنم لیتے ہیں junk food جنک فوڈ جسے آپ غیر صحت مند فوڈ بھی کہہ سکتے ہیں کو فروغ دینے میں میڈیا میں پبلسٹی کے توسط سے اتنا عام کر دیا گیا ہے کہ بچہ ہو کہ بوڑھا‘ وہ اس چسکے دار فوڈ کا غلام بن کر رہ گیا ہے‘ اس زہر کو تجارتی لوگ جاذب نظر پیکنگ میں فروخت کر کے قوم کی صحت کے ساتھ کھیل رہے ہیں‘معدے کی کئی بیماریاں اور عوارض قلب اسی جنک فوڈ سے پیداہو رہے ہیں۔اکثر لوگ کھانے پینے کے اس نئے ویسٹرن کلچر سے نالاں ہیں جس میں خواتیں خانہ ہوٹلوں سے آ ن لائن کھانے منگوا لیتی ہیں جو اکثر حفظان صحت کے اصولوں پر پورا نہیں اترتے کیا اس بات میں کوئی شک ہے کہ بعض جگہوں پر بیمار اور مردہ مرغیوں کو مرچ مصالحہ لگا کر انہیں عوام کو کھلایا جا رہا ہے‘کیا کسی ذمہ دار ادارے نے اچانک چھاپے مار کر ان عناصر کو رنگے ہاتھوں پکڑا ہے جو مذبح خانوں میں صبح تڑکے مویشیوں کو ذبح کر کے مارکیٹ میں فروخت کر رہے ہیں حالانکہ ضروری ہے کہ وہ ان کو ذبح کرنے سے پیشتر ویٹرنری ڈاکٹر سے ان کا جسمانی معائنہ کروائیں کہ کہیں وہ کسی بیماری میں مبتلا تو نہیں اور کیا ویٹرنری ڈاکٹر مذبح خانے جانے کی تکلیف کرتے ہیں ان کی وہاں موجودگی یا عدم موجودگی کو کیا کبھی کسی ڈپٹی کمشنر نے صبح تڑکے چھاپہ مار کر چیک کیا ہے؟۔