توانائی بحران

رواں سال زمین کے عالمی دن کا موضوع ”ہماری طاقت، ہمارا سیارہ“ تھا۔ اِس دن کو علامتی طور پر منایا جاتا ہے جبکہ ماہرین کا مطالبہ ہے کہ اِس کی معنویت و اہمیت کو سمجھا جائے۔ بڑھتے ہوئے ماحولیاتی خطرات، مالی دباؤ اور بڑھتی ہوئی توانائی کی غربت کے درمیان، پاکستان کو فیصلہ کن لمحے کا سامنا ہے۔ توانائی کی منتقلی نظریاتی انتخاب نہیں۔ یہ اقتصادی، ماحولیاتی اور اسٹریٹجک لازمی ہے۔ عالمی سطح پر 2030ء تک قابل تجدید توانائی کو تین گنا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ پاکستان کے لئے کامیابی نہ صرف کاربنائزیشن ختم کرنے میں ہے بلکہ ساختی عدم توازن، توانائی کی کمی‘ علاقائی عدم مساوات اور صنعتی مسابقت کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ جامع، پائیدار اور آب و ہوا کے تحفظ پر مبنی توانائی کے مستقبل کی راہ ہموار کی جا سکے۔ دریں اثنا طویل لوڈ شیڈنگ معمول کی بات ہے جبکہ گردشی قرضہ 2.6 کھرب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ مالی سال 2023-24ء میں ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نقصانات 18 فیصد (نیپرا کی 11.77فیصد حد سے زیادہ) رہے‘ جس سے قرضوں میں 280 ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا۔ مالی سال 2023ء میں بجلی کی فروخت میں 10 فیصد کمی واقع ہوئی اور 45 ہزار 888میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے باوجود پلانٹ کا استعمال صرف 33.88 فیصد رہا۔ یہ رجحانات نااہلی، ناقص منصوبہ بندی اور کم سرمایہ کاری کی عکاسی کرتے ہیں۔ پاکستان کے قابل تجدید توانائی کے عزائم فرسودہ گرڈ انفراسٹرکچر، محدود ٹرانسمیشن صلاحیت اور ریگولیٹری تقسیم کی وجہ سے رکاوٹ ہیں۔ منتقلی کو تیز کرنے کے لئے، ٹارگٹڈ گرڈ اپ گریڈ، وفاقی‘ صوبائی صف بندی اور توانائی ذخیرہ کرنے، سرمایہ کاری‘ مقامی ٹیکنالوجی اور افرادی قوت کی ترقی کے لئے فریم ورک اہم ہیں۔ دوسری جانب قابل تجدید توانائی، بشمول بڑے ہائیڈرو، توانائی مکس کا 31 فیصد حصہ رکھتے ہیں لیکن ہوا اور شمسی توانائی کا حصہ 10 فیصد سے بھی کم ہے، جو ہدف سے بہت کم ہے اگرچہ شمسی توانائی لاگت اور فوسل ایندھن پر انحصار کم کرنے میں مدد کرتی ہے لیکن یہ گرڈ اور تقسیم کار کمپنیوں (ڈی آئی ایس سی اوز) کے بارے میں خدشات پیدا کرتی ہے۔ پالیسی کے استحکام کو یقینی بنانے اور شعبہ جاتی چیلنجوں سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لئے مضبوط اسٹیک ہولڈرز ان پٹ کے ساتھ تحقیق شدہ اعداد و شمار پر مبنی نکتہئ نظر انتہائی اہم ہے۔پاکستان میں بجلی کی کھپت کا پروفائل غیر مرکزی شمسی توانائی کے امکانات سے مطابقت رکھتا ہے۔ مالی سال 2023-24ء میں گھرانوں کی طلب تقریباً پچاس فیصد تھی جبکہ صنعت نے صرف 18فیصد کا استعمال کیا۔ اِس قسم کا عدم توازن اخراجات میں اضافہ کرتا ہے اور پیداواری صلاحیت کو محدود کرتا ہے۔ اس کے علاؤہ الیکٹرک گاڑیاں، برقی کھانا پکانے کے آلات اور غیر مرکزی پیداوار میں اضافہ بجلی کی طلب کو نئی شکل دے رہا ہے اور نئے پریشر پوائنٹس متعارف کرا رہا ہے۔ اس تبدیلی کے لئے ایک جوابدہ، دو طرفہ گرڈ نظام کی ضرورت ہوتی ہے جو تقسیم شدہ بہاؤ کا انتظام کرنے اور اسٹوریج کو مربوط کرنے کے قابل ہو۔ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے دو طرفہ توانائی کے نظام، ڈیمانڈ سائیڈ مینجمنٹ، ٹائم آف یوز پرائسنگ اور انرجی اسٹوریج جیسے ٹولز اب مستحکم توانائی کے نظام کے لئے ضروری ہیں۔پاکستان کا پاور گرڈ انفراسٹرکچر، جسے بڑی حد تک دہائیوں پہلے ڈیزائن کیا گیا تھا، ہیٹ ویو اور نمی سے لے کر دھول‘ دھند‘ آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق دباؤ کا مجموعہ ہے۔ یہ صورتحال اب بے قاعدہ نہیں رہی بلکہ بار بار خطرات، سازوسامان کی کمی اور سروس بریک ڈاؤن کو جنم دینا ہے۔ مون سون کے تحت ٹرانسمیشن لائنیں خراب ہوتی ہیں۔ بڑھتی ہوئی گرمی میں ٹرانسفارمر خراب ہو جاتے ہیں۔ اس کے باوجود گرڈ لچک کو بڑی حد تک کم توجہ دی جاتی ہے۔ گرڈ کی کارکردگی قابل اعتماد اور یقینی بنانے پر توجہ مرکوز ہونی چاہئے۔ قابل تجدید روڈ میپ کی صلاحیت میں اضافہ، گرڈ انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا، نجی سرمائے کو متحرک کرنا اور مقامی طور پر تحقیق شدہ جدت کو فروغ دینا چاہئے خاص طور پر پسماندہ علاقوں میں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے ”پاکستان لو کاربن انرجی آؤٹ لک اینڈ ٹیکنالوجی روڈ میپ 2024ء“ میں توانائی کی بہتر کارکردگی، ایندھن کو کم کاربن ایندھن کی طرف منتقلی اور بجلی کی فراہمی کے ذریعے 2050ء تک اخراج کو 36 فیصد تک کم کرنے کے قابل عمل راستے کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کمی صارفین کی طرف سے متوقع ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر شفقت حسین میمن۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

 اس مقصد کے حصول کے لئے 2050ء تک 192 ارب ڈالر کی اضافی سرمایہ کاری درکار ہوگی جس میں ہائیڈرو، سولر، ونڈ، نیوکلیئر پاور اور ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے لئے 22 ارب ڈالر شامل ہوں گے۔ یہ سرمایہ بنیادی طور پر نجی ذرائع سے آنا چاہئے، نہ کہ سرکاری خزانے (عوامی بجٹ) سے۔ اسی طرح، آئی پی پیز معاہدوں کی تنظیم نو، ادائیگیوں کو روپے سے جوڑنا اور ٹیک اینڈ پے ماڈل کی طرف بڑھنے سے بھی کچھ مالی گنجائش پیدا کی جا سکتی ہے تاہم، یہ سب عبوری اقدامات ہیں۔ بجلی کے پیداواری اور تقسیم کے شعبوں میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں توانائی کا شعبہ یورپی یونین کے اوسط سے 1.4 گنا زیادہ کاربن پر مشتمل ہے، جس سے برآمد کنندگان کو کاربن بارڈر ٹیکسوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک قابل اعتماد ڈی کاربنائزیشن حکمت عملی کے بغیر، پاکستان کو آب و ہوا سے منسلک تجارت اور سرمایہ کاری میں خسارے کا خطرہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔