ملک کے تعلیمی حلقوں میں سنٹر ل سپرئیر سروس (CSS) کو بڑا امتحا ن کہا جا تا ہے ہر پا کستانی گریجویٹ اس میں بیٹھنا چاہتا ہے اس لئے اس کا نتیجہ آنے کے بعد ملک کے تعلیمی نظام پر ایک نئی بحث شروع ہوتی ہے اس بحث میں تعلیمی نظام کی خرا بیاں بیان کی جا تی ہیں‘اساتذہ کی کار کر دگی پر سوالات اٹھا ئے جاتے ہیں سی ایس ایس کے امتحا ن 2024ء کا نتیجہ ابھی آیا ہے‘ فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے جو نتا ئج جا ری کئے ان کے مطا بق امتحا ن دینے والوں کی کل تعداد کا صرف ڈھا ئی فیصد پا س ہوا‘ بڑے امتحان میں پا س ہونے والوں کو معاشرے کا مکھن (Cream of the society)کا نا م دیا جا تا ہے‘ جو نتیجہ آیا اس کے اعداد و شمار بہت حوصلہ شکن پیغام دیتے ہیں مثلاً اشتہار آنے کے بعد 23100 امیدواروں نے درخواستیں جمع کر وائیں سکریننگ ٹیسٹ میں 6500 فیل ہو گئے‘ پھر تحریری امتحا ن ہوا تحریری امتحا ن میں 14207 امیدوار فیل ہوئے صر ف395کو انٹر ویو کے لئے بلا یا جا ئیگا یعنی 23ہزار میں سے 395زبا نی امتحا ن میں بیٹھیں گے اور ان میں سے ڈھا ئی فیصد پا س ہونگے اسامیوں کی تعداد کے لحا ظ سے کتنی تعداد پا س ہو گی اس کا اندازہ لگا نا زیا دہ مشکل نہیں‘ مقدار اور معیار کی بحث میں سر کھپا نے والے ما ہرین سکولوں اور یو نیور سٹیوں کے نظام میں کیڑے نکا لتے ہیں‘یہ بات درست ہے کہ اٹھارھویں تر میم کے بعد یونیور سٹیوں کا نظام تباہ ہو چکا ہے‘ سمسٹر سسٹم کی افسوس نا ک نا کا می نے تعلیمی معیار کو نا قا بل تلا فی نقصان پہنچا یا ہے مگر فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے سسٹم کو جو دیمک لگی ہے وہ بہت کم لو گوں کو نظر آتا ہے دنیا نے اکیسویں صدی کے 25ویں سال میں قدم رکھا‘مذکورہ کمیشن اب تک بیسویں صدی میں ہے‘ اشتہار جا ری کرنے اور درخواستیں وصول کرنے کا وہی دقیا نوسی طریقہ چل رہا ہے اگر کمیشن اپنے مرا کز امتحا نات کو درخواستیں وصول کرنے سے پہلے فعال کر کے متوقع امیدواروں کے لئے ہر مر کز میں کونسلنگ کا انتظام کر تا تو درخواست دینے والوں کی تعداد میں 50فیصد کمی ہو تی کمیشن کے لئے وقت اور دیگر وسائل کی خا طر خواہ بچت ہوتی یہی طریقہ یو نیور سٹیوں کی سطح پر کیرئیر کونسلنگ کے نا م پر ہونا چاہئے تھا اور بڑے امتحا ن کے متوقع امیدواروں کو بتا نا چاہئے تھا کہ پیشوں کے انتخا ب میں سول بیور و کریسی اکیسویں صدی میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر نہیں رہی اس کی بے شمار وجو ہا ت ہیں سب سے بڑی وجہ یہ ہے یہ سروس اپنے عروج کو دیکھ چکی اب اس کے زوال کے دن آگئے ہیں 1950ء اور 1960ء والے عشروں کا دور اب نہیں رہا صو بوں نے پی ایم ایس کا کیڈر متعارف کرا یا جس میں تر بیت اور مہا رتوں کا معیا رقدرے بہتر ہے نجی شعبے میں نظم و نسق کے لئے نو جوا نوں کو سرکاری آفیسروں کے مقا بلے میں کئی گنا بہتر مواقع آگئے ہیں‘ علم میں اضا فہ سیکھنے کا عمل اور عوامی رابطہ کا ری کا تجربہ نجی شعبے میں سب سے زیا دہ ہوتا ہے سرکاری دفتر میں ذہین‘ محنتی اور قابل نو جوانوں کی صلا حیتوں کو زنگ لگ جا تا ہے جو لوگ یو نیور سٹی سے فارغ ہوکر کچھ بننا چاہتے ہیں اور کچھ کرنا چاہتے ہیں ان کو سرکاری ملا زمت کی جگہ پرائیویٹ سیکٹر میں جانا چاہئے‘ ڈاکٹر انجینئر‘ ایم اے انگلش اور ایم اے پو لٹیکل سائنس وغیرہ کی جگہ ایم بی اے (ایگزیکٹیو)‘ ایم بے اے (فنا نس)‘ ایم بی اے (ہیو من ریسورس)‘ چارٹر ڈ اکا ؤنٹنٹ وغیرہ کو سنٹرل سپریئر سروس کا امتحان دینا چاہئے‘ اس قسم کے غیر روا یتی تصورات پر مبنی کیرئیر کونسلنگ ہو جا ئے‘ یہ کام فیڈرل پبلک سروس کمیشن بھی کرے اور ملک کی جا معات میں بھی اس کا با قاعدہ اہتمام ہو تو 280اسامیوں کے لئے 23ہزار درخواستیں جمع نہیں ہونگی بڑے امتحان کا نتیجہ ڈھا ئی فیصد نہیں آئیگا‘ یہ مکھی پر مکھی مارنے کا نتیجہ ہے سنگا پور میں لی کوان یو سکول آف پبلک پا لیسی اور قطر کی شیخ حماد بن خلیفہ یو نیور سٹی میں ایک با قاعدہ پبلک پا لیسی انسٹی ٹیوٹ اس پر کام کر رہا ہے سٹیٹ بینک کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین نے اس پر کتاب بھی شائع کی ہے انہوں نے ملک کی بیورو کریسی کو پیشہ ور لو گوں کے ہا تھوں میں دینے کے لئے حکومت کو ایک منصو بہ بھی پیش کیا ہے دنیا کے ساتھ چلنا وقت کی ضرورت ہے سی ایس ایس کو بھی وقت کے تقا ضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہئے ”یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے پیش کر غا فل عمل اگر کوئی دفتر میں ہے“۔