جنگ بندی کی نزاکت اور خدشات

گزشتہ ہفتے جنوبی ایشیا ایک ہولناک بحران سے دوچار رہا‘ جب بھارت اور پاکستان چار دن تک شدید فضائی جھڑپوں میں الجھے رہے‘ جس سے دونوں روایتی حریفوں کے درمیان جوہری تصادم کا خطرہ سروں پر منڈلانے لگا۔ 1971ء کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان یہ سب سے سنگین کشیدگی رہی‘ جس نے فوری عالمی ردعمل کو جنم دیا۔ امریکہ کی ثالثی سے 10مئی کو جنگ بندی ممکن ہوئی‘ جس نے ممکنہ تباہی کو وقتی طور پر روک دیا۔سال 2019ء میں سائنس ایڈوانسز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق پہلے ہی خبردار کر چکی تھی کہ دونوں ممالک کے مابین جوہری جنگ لاکھوں جانیں لے سکتی ہے اور عالمی ماحولیاتی نظام کو درہم برہم کر سکتی ہے مگر اس حالیہ جنگ بندی کی نازک حیثیت‘ باہمی بداعتمادی‘ الزامات اور غلط معلومات کے سائے میں‘ علاقائی امن پر مسلسل خطرے کی گھنٹی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود تنازعہ 22اپریل 2025ء کو اس وقت شروع ہوا جب مقبوضہ کشمیر کے پہلگام میں دہشت گرد حملے کے نتیجے میں درجنوں سیاح مارے گئے۔ بھارت نے الزام پاکستان سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں پر لگایا اور 7مئی کو ”آپریشن سندور“کا آغاز کیا۔ رافیل طیاروں نے پاکستانی حدود میں حملے کئے‘ جنہیں بھارت نے دہشت گردی کے خلاف سرجیکل کاروائی قرار دیا۔ پاکستان نے ان حملوں 
کو شہری علاقوں پر بمباری قرار دیتے ہوئے ہلاکتوں کا الزام بھارت پر عائد کیا۔9مئی کو بھارتی میڈیا کی جانب سے کراچی بندرگاہ اور دیگر شہروں پر حملوں کی جھوٹی خبریں نشر ہوئیں‘ جو بعد ازاں جھٹلائی گئیں مگر اس دوران قوم پرستی کو ہوا ملی اور بھارت کی بین الاقوامی ساکھ متاثر ہوئی۔ پاک بھارت جنگ میں غلط معلومات ایک خطرناک ہتھیار ثابت ہوئیں۔ کراچی پر حملوں سے متعلق افواہیں اس بات کی علامت ہیں کہ کس طرح بے قابو اطلاعات حکومتوں کو سخت مؤقف اپنانے پر مجبور کر سکتی ہیں۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں‘ ایسی تحریفات کسی بھی محدود جھڑپ کو مکمل جنگ میں بدل سکتی ہیں۔ یہی صورتحال درست‘ تصدیق شدہ مواصلات کی فوری ضرورت کو نمایاں کرتی ہے۔9مئی کو راولپنڈی کے قریب نور خان ائربیس پر بھارت کے حملے کے بعد پاکستان نے بڑے پیمانے پر جوابی کاروائی کی۔ پاکستانی فوج کے مطابق‘ انہوں نے بھارت کی 26فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جن میں فضائی اڈے اور دیگر اہم مراکز شامل تھے۔ اس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ‘ جو ابتدا میں تذبذب کا شکار تھی‘ کشیدگی کو کم کرنے کے لئے متحرک ہوئی۔ مذاکرات کے نتیجے میں 10مئی کو جنگ بندی طے پا گئی‘ جس کا اعلان صدر ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل نامی سماجی رابطہ کاری کے ذریعے سے کیا۔ انہوں نے اس پیش رفت کو امریکی سفارتکاری کی کامیابی قرار دیا اور مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کی امید ظاہر کی تاہم بھارت نے واشنگٹن کے کردار کو سراہنے سے گریز کیا۔ جنگ بندی کے چند ہی گھنٹوں بعد بھارتی سیکرٹری خارجہ نے پاکستان پر لائن آف کنٹرول پر ڈرون حملوں اور گولہ باری کا الزام عائد کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بداعتمادی گہری ہے۔ کشمیر پر دوطرفہ مذاکرات پر بھارت کا اصرار بین الاقوامی ثالثی کے مؤثر کردار سے متصادم ہے۔ ادھر پاکستان کی جانب سے چین کے تیارکردہ جے 10سی طیاروں پر انحصار اس کی بیجنگ کے ساتھ اسٹریٹجک صف بندی کو ظاہر کرتا ہے۔ بھارت کے سابق آرمی چیف جنرل منوج نروانے نے 12مئی کو اپنے خطاب میں خبردار کیا کہ جنگ کوئی فلمی تصور نہیں بلکہ ایک سنگین المیہ ہے‘ جس کا سب سے زیادہ اثر معصوم شہریوں اور بچوں پر پڑتا ہے۔ انہوں نے سفارتکاری کو اولین ترجیح 
دینے پر زور دیا۔ 2025ء کا یہ تصادم بھارت اور پاکستان کے درمیان عسکری تفاوت کو بھی بے نقاب کر رہا ہے۔ بھارت کا دفاعی بجٹ 86ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان کا صرف 10ارب‘ لیکن بھارت کا فضائی دفاع کمزور اور بوسیدہ ہے۔ اس کے برعکس پاکستان نے چین کے جدید ہتھیاروں سے بھارتی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ دونوں ممالک کے پاس 160سے زائد جوہری وار ہیڈز ہیں‘ اور ان کی موجودگی کسی بھی کشیدگی کو عالمی تباہی میں بدل سکتی ہے۔ اگر جنگ بندی کو پائیدار امن میں بدلنا ہے تو بھارت اور پاکستان کو تجارتی تعلقات بحال کرنے‘ براہ راست بات چیت شروع کرنے اور اعتماد سازی کے اقدامات کرنے ہوں گے۔ امریکہ اور چین جیسے عالمی کردار اس عمل میں معاون ہو سکتے ہیں مگر مستقل حل تبھی ممکن ہے جب دونوں ممالک تحمل‘ مکالمے اور حقیقت پسندی سے کام لیں۔ مئی2025ء کا بحران ایک وارننگ ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس دشمنوں کے درمیان معمولی غلط فہمی بھی دنیا کو تباہی کے دہانے پر لا سکتی ہے جیسا کہ بھارتی جنرل نروانے نے کہا کہ جنگ میں کوئی رومانس نہیں یہ صرف دکھ‘ تباہی اور انسانی المیے کا مجموعہ ہوتی ہے تو دونوں ممالک کو اب مستقبل کی نسلوں کا سوچتے ہوئے امن کا راستہ چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر یوسف نذر۔ ترجمہ ابوالحسن امام)