ذیل کی سطور معروف ماہر امراض قلب
پروفیسر ڈاکٹر محمد حفیظ اللہ کی کتاب قلب منیب
سے لی گئی ہیں جس میں حرمین شریفین کے سفر
کی رو داد قلبی محبت اور عقیدت کیساتھ لکھی گئی
ہے ہر لفظ محبت کی مٹھاس لئے ہوئے ہے
گھڑیال کا الارم بجا تو ایسا لگا کہ کہیں دور گھنٹیاں بج رہی ہیں کانوں میں الارم کی آواز آرہی تھی لیکن آنکھ کھل نہیں رہی تھی تھوڑی دیر بعد پھر الارم کی آواز آئی مگر وہ بھی ہمیں خواب سے بیدار نہیں کرسکی چند لمحوں کے گزرنے کے بعد موبائل فون پر شیخ سدیس کی آواز میں تلاوت کلام پاک کی مسحور کن آواز ابھری‘ جو کانوں میں رس گھولتی ہوئی دل میں اتر رہی تھی سورہ رحمن کی تلاوت ہو رہی تھی ابھی بستر پر گئے صرف تین ہی گھنٹے ہوئے تھے گہری نیند سے خود کو جگانا کوئی آسان نہیں تھا دن بھر اور آدھی رات تک تھکا دینے والے سفر اور عمرے کے بعد صبح سویرے اٹھنا ویسے بھی مشکل ہوتا ہے علی الصبح تین بجے نیند سے بیدار ہونا اور بستر سے اٹھنا مشکل ہے اس کیلئے اخلاص‘ مضبوط قوت ارادی اور غیر معمولی اعتقاد کی ضرورت ہوتی ہے ہوٹل کی کھڑکی سے باہر نظر دوڑائی تو ایک روح پرور منظر تھا سڑکوں اور گلیوں سے لوگوں کاایک ہجوم رواں دواں تھا ان میں مردبھی تھے عورتیں اور بچے بھی تھے مختلف لباس‘ رنگ نسل اور قومیت کے لوگ حرم کعبہ کی طرف رواں دواں تھے مجھے پہلی نظر میں یقین نہیں آیا آنکھیں مل کے دوبارہ سڑک پر نظر دوڑائی اور وہی دل لبھانے والا منظر دیکھا سڑک کے دونوں اطراف دکانیں بھی کھلی تھیں جہاں سے لوگ ٹوپیاں‘ مسواک اور قرآن پاک کے نسخے ہدیہ کر رہے تھے مخالف سمت میں اکادکا لوگ جا رہے تھے لوگوں کی بہت بڑی تعداد حرم کی جانب گامزن تھی اوران کے لبوں پر اللھم لبیک کا ورد تھا وہ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ! میں اپنی عقیدتوں کے پھول نچھاور کرنے آپ کے دربار میں حاضر ہوا ہوں۔کچھ دنوں بعد جب ہم مسجد نبویؐ کے دروازے سے اندر داخل ہوئے تو صبح ساڑھے تین بجے کاوقت تھا اور تہجدکی اذان کی صدائیں فضاء میں گونج رہی تھیں میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو انسانی سروں کاایک لامتنائی سلسلہ نظر آیا اور انسانوں کایہ ٹھاٹیں مارتاسمندر مسجد نبویؐ کی طرف بڑھ رہا تھا ایک دن پہلے ہوائی اڈے پر لوگوں کے چہروں پر تھکاوٹ کے اثرات نمایاں تھے‘ بے ہنگم رش میں لوگ بیزار دکھائی دے رہے تھے ہر کوئی عجلت میں تھا اور پہلی دستیاب پرواز تک رسائی کے لئے کوشاں تھامگر آج ان لوگوں کے چہرے ہشاش بشاش تھے‘بے انتہا رش کے باوجود نظم و ضبط قابل دید تھا چہروں پر تھکاوٹ اور پژمزدگی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے رحمت اور مغفرت کا شوق سب کے دلوں میں موجزن تھا۔ مسجد نبویؐ میں حاضری دینے کایہ شوق ہی ہے جو انسان کی آنکھوں سے نیند اڑا دیتاہے اور وہ علی الصبح تین بجے بیدار ہوتے ہیں جب مسجد نبویؐ میں خشوع و خضوع کے ساتھ داخل ہوتے ہیں تو خودکو دنیا کاخوش قسمت ترین انسان سمجھتے ہیں مسجد نبویؐ کی طرف جاتے ہوئے ہر بندہ سوچتا ہے کہ صبح سویرے مسجد میں داخل ہونے والا وہ پہلا شخص ہوگا مگر یہاں پہنچ کر اسے خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ وہاں اس سے پہلے ہزاروں افراد پہنچ چکے ہیں ریاض الجنہ اور پہلی صف میں تل دھرنے کی جگہ باقی نہیں ہے پھر یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ ابھی مزید ہزاروں افراد نے آنا ہے اور جن کو مسجد نبویؐ کے احاطے میں جگہ مل جائے وہ خوش قسمت انسان ہوگا اور ہزاروں افراد ان سے پہلے بھی یہاں آئے تھے اور رحمتوں اور برکتوں کے موتی چن کر جاچکے ہیں۔ مسجد نبویؐ کے اندر کے مناظر نہایت جذباتی اور روح پرور ہوتے ہیں‘ کوئی قرآن پاک کی تلاوت سے اپنی روح کو تسکین پہنچا رہاہے کوئی نم آنکھوں اور لرزتے ہاتھوں کے ساتھ اپنی بخشش کی دعا مانگ رہاہے کوئی تہجد کے نوافل اداکرنے میں مصروف ہے کسی کامسجد نبویؐ میں داخل ہونے اورنماز کی ادائیگی کا زندگی میں پہلاموقع ہوتاہے ان لوگوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے اور کسی کیلئے یہ روز کا معمول بھی ہے یہاں آئے ہوئے لوگوں کو یقین ہے کہ وہ اپنے خالق کائنات سے جوبھی مانگیں گے ان کی ہر دعاکو شرف قبولیت حاصل ہوگی لیکن انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا مانگیں اور کیسے مانگیں کہ ان کی ہرحاجت پوری اور ہر دعا قبول ہونے کا دن ہے یہ بڑا جذباتی لمحہ ہوتا ہے اس وجہ سے انسان اپنی عبادت میں کھو جاتا ہے جو کچھ اس کے دل میں ہوتا ہے وہی زبان پر آتا ہے جب نمناک آنکھوں اور لرزتے ہونٹوں کے ساتھ وہ اپنے رب کے حضور رحمت اور مغفرت کی دعا مانگتا ہے تواسے یقین ہوتاہے کہ اس کی فریاد ضرور سنی جائے گی۔