پاکستان زرعی ملک ہے۔ ہماری زمین زرخیز ہے۔ ہمارے کسان محنتی لیکن اس سب کے باوجود زراعت کمزور ہے۔ پاکستان اکنامک سروے 2023-24ء کے مطابق زراعت کا جی ڈی پی میں حصہ چوبیس فیصد ہے اور اُنتالیس فیصد افراد اس شعبے میں کام کرتے ہیں۔ اتنی اہمیت کے باوجود زراعت بحران کا شکار کیوں ہے؟پاکستان کا زرعی بحران صرف بارش کی کمی یا موسمی تبدیلیوں کا نتیجہ نہیں۔ اصل وجہ اس شعبے میں پائی جانے والی بدانتظامی، بدعنوانی اور قومی وسائل پر چند خاندانوں کا قبضہ ہے۔ سندھ اور پنجاب میں سب سے زیادہ زرعی پیداوار ہوتی ہے لیکن یہیں سب سے زیادہ کسانوں اور محنت کشوں کا استحصال بھی ہوتا ہے۔ سندھ میں صرف دو فیصد بڑے زمینداروں کے پاس پیتالیس فیصد زرعی زمین ہے یعنی زمین پر چند لوگوں کا قبضہ ہے۔ چھوٹے کسان یا تو مزارعے ہیں یا مزدور۔ اُن کے پاس نہ زمین ہے، نہ سرمایہ، نہ سستی کھاد، نہ مشینری۔ وہ بڑی مشکل سے گزارا کرتے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں بھی یہی صورتحال ہے۔ چھوٹے کسان قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ انہیں بینک سے قرض نہیں ملتا۔ وہ غیر رسمی قرض دہندہ سے پیسے لیتے ہیں، جو سود در سود کا جال ہوتے ہیں۔ ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی، بیج، پانی یا حکومت کی مدد نہیں پہنچتی۔ حال ہی میں سندھ حکومت نے سرکاری زمین بڑے کارپوریٹ اداروں کو دی ہے۔ ان کا مقصد زراعت کو جدید بنانا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ جدیدیت کسان کے حقوق کی تلفی کی قیمت پر ہونی چاہئے؟ آکسفیم کی 2023ء کی رپورٹ کہتی ہے کہ کارپوریٹ فارمنگ کے نتیجے میں مقامی کسان بے دخل ہو جاتے ہیں، زمین چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جاتی ہے اور غذائی تحفظ کو نقصان پہنچتا ہے۔ ایسی پالیسیاں آئین کے خلاف ہیں۔ پاکستان کا آئین ہر شہری کو باعزت زندگی کا حق دیتا ہے (ملاحظہ کریں آئین کا آرٹیکل 9) اور آمدنی و مواقع میں برابری کا وعدہ کرتا ہے (ملاحظہ کریں آئین کا آرٹیکل 38)۔ جب کسان زمین سے محروم ہو، جب مزدور بے روزگار ہو جائے، جب کھانے کی فصلیں ختم ہو کر برآمدی فصلوں میں بدل دی جائیں، تو یہ ترقی نہیں بلکہ زرعی شعبے کی تباہی کہلاتی ہے۔زراعت کے لئے پانی بنیادی ضرورت ہے۔ پاکستان میں تیس سے چالیس فیصد آبپاشی کا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ نہری نظام پرانے وقتوں کا ہے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کم ہے۔ واٹر مینجمنٹ کا مؤثر نظام موجود نہیں۔ دوسری طرف پیداوار بھی کم ہے۔ ہمارے ہاں فی ایکڑ پیداوار دنیا کے کئی ملکوں سے کم ہے۔ اس کی بڑی وجہ ناقص بیج، کھاد، ٹیکنیکل تعلیم کی کمی اور حکومتی عدم توجہی ہے۔ ایف اے او کی 2022ء کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پنجاب میں ڈرپ آبپاشی نے پانی کے استعمال میں پچاس فیصد بچت دی اور پیداوار میں بیس فیصد اضافہ ہوا۔ پی اے آر سی کی رپورٹ (2023ء) کے مطابق ہائبرڈ بیجوں نے سندھ میں گندم اور کپاس کی پیداوار بڑھائی۔ یہ مثبت اشارے ہیں لیکن فائدہ صرف انہیں ہوا جنہیں سہولتیں ملیں۔ تمام کسانوں کو جدید سہولتیں دینا ہوں گی۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مرتب کردہ 2023ء کے اعداد و شمار کے مطابق صرف پندرہ فیصد چھوٹے کسانوں کو بینکوں سے قرضہ ملتا ہے۔ باقی سب مجبوراً ساہوکاروں سے پیسے لیتے ہیں۔ ان کی مجبوری سے کئی لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ سال دوہزاراکیس میں پی آئی ڈی ای کی رپورٹ میں کہا گیا کہ صرف دس فیصد کسانوں کو زرعی توسیعی خدمات میسر ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ نوے فیصد کسانوں تک جدید معلومات، تربیت اور سائنسی طریقے نہیں پہنچتی۔پاکستان کا آئین حکومت پر اِس بات کی ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ معاشی مساوات کو یقینی بنائے۔ آرٹیکل 9 اور 38 صرف کاغذی دفعات نہیں، یہ عوام کے حقوق ہیں۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ وسائل کی منصفانہ تقسیم و استعمال کرے، کسانوں کو زمین دے، قرض دے، تعلیم دے اور عزت دے۔ اس کے علاؤہ وقت اِس بات کا بھی ہے کہ زراعت کو صرف کارپوریٹ ماڈل کے بجائے عوامی اور جامع ماڈل کے تحت چلایا جائے۔ اس کے لئے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں۔ زمین کی منصفانہ تقسیم: حکومت کے پاس لاکھوں ایکڑ سرکاری زمین موجود ہے۔ یہ زمین بے زمین کسانوں کو دی جانی چاہئے۔ سندھ میں ہری کمیٹی جیسے کسانوں کے حق میں کام کرنے والے ادارے زمین کی منصفانہ تقسیم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ مطالبہ جائز ہے۔ کرایہ داری کے قوانین کو مضبوط کیا جائے تاکہ مزارعے کو بھی فائدہ حاصل ہو۔ 1950ء کا سندھ ٹینیسی ایکٹ اِس سلسلے میں اچھی بنیاد فراہم کرتا ہے لیکن اس پر عملدرآمد ضروری ہے۔ سستے اور شفاف زرعی قرضہ جات دیئے جائیں۔ چھوٹے کسانوں کو بینک قرض نہیں دیتے۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لئے حکومت کو خصوصی قرض اسکیم لانی چاہئے۔ سبسڈی والے قرضے دیئے جائیں۔ قرض کی شرائط آسان ہوں، اور اس عمل میں کرپشن نہیں ہونی چاہئے۔ زرعی ان پٹ پر سبسڈی دی جانی چاہئے۔ بیج، کھاد، پانی اور مشینری وقت کے ساتھ مہنگی ہو رہی ہیں جنہیں کسانوں کے لئے قابل دسترس بنانے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ چھوٹا کسان زرعی ضروریات خریدنے کے قابل بھی نہیں ہوتا۔ حکومت کو چاہئے کہ پیداواری ضروریات سبسڈی (رعایتی نرخوں) پر فراہم کرے۔ اس سبسڈی کو طاقتور طبقات تک محدود نہ رکھا جائے۔ اِس عمل میں کڑی نگرانی اور شفافیت یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ چوتھی ضرورت زرعی تعلیم اور تربیت کی ہے۔ کسان کو صرف ہل چلانا نہ سکھایا جائے بلکہ انہیں یہ بھی بتائیں کہ کس فصل کو کب اور کیسے اگایا جانا چاہئے۔ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کیا ہیں؟ پانی کا مؤثر استعمال کیسے ہو؟ جدید بیج کیسے استعمال ہوں؟ اس کے لئے موبائل ایجوکیشن یونٹس شروع کئے جانے چاہیئں۔ ہر ضلع میں زرعی تربیت کے مراکز قائم ہونے چاہیئں۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر مرتضیٰ کھوڑو۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
پانچویں ضرورت کسان تنظیموں اور کوآپریٹو سسٹم کو فعال بنانے کی ہے۔ چھوٹے کسان اگر الگ الگ کام کریں گے تو منڈی تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ حکومت کو چاہئے کہ کوآپریٹو فارمز کی حوصلہ افزائی کرے۔ کسانوں کی تنظیمیں بنائی جائیں جو اجتماعی خریداری، اجتماعی فروخت اور اجتماعی مشینری جیسے انتظامات کریں۔ پنجاب کے ڈیری سیکٹر میں اس حکمت عملی کی کامیاب مثالیں موجود ہیں۔ چھٹی ضرورت ”شفافیت اور عوامی شمولیت“ کی ہے۔ زرعی پالیسیوں میں صرف وزیروں، بیوروکریٹس یا کمپنیوں کو شامل نہ کیا جائے۔ کسانوں سے مشورہ بھی لیا جائے۔ ہر منصوبے کا ماحولیاتی جائزہ لینا الگ سے ضروری ہے۔ سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو چاہئے کہ وہ کسانوں کے حقوق سے متعلق بے قاعدگیوں کا ازخود نوٹس لیں۔ ساتویں ضرورت ماحولیاتی تحفظ کے تقاضوں کو سمجھنے کی ہے۔ زراعت اور ماحول ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اگر ہم زیر زمین پانی کا درست یعنی دانشمندی سے استعمال نہیں کریں گے اور اگر کیمیکل کھادوں کا اندھا دھند استعمال کریں گے، اگر جنگلات کاٹیں گے، تو زراعت کا مستقبل جو کہ پہلے سے خطرے میں ہے مزید خطرات سے دوچار ہو جائے گا۔ ماحول دوست زراعت کو فروغ دینے کے لئے کسانوں کو تربیت دی جائے کہ وہ کم پانی والی فصلیں اُگائیں اور ایسی فصلیں اُگائی جانی چاہیئں جو موسمیاتی تبدیلیوں کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتی ہوں۔ آٹھویں ضرورت زرعی شعبے میں تحقیق و ترقی کی ہے۔ زرعی جامعات‘ تحقیقی اداروں اور حکومت کے درمیان تعلق جو بظاہر موجود تو ہے لیکن مضبوط نہیں۔ زراعت سے متعلق ریسرچ (تحقیق) صرف فائلوں تک محدود نہیں ہونی چاہئے بلکہ یہ ہر کسان تک بذریعہ ذرائع ابلاغ پہنچنی چاہئے تاکہ زرعی تحقیق سے عملاً فائدہ اُٹھایا جا سکے۔ باخبر و بااختیار کسان ہی پاکستان کے غذائی تحفظ کی بقا کا ضامن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔