دیرآید درست آید کے مصداق بالآخر صوبے کی دو درجن سے زائد یونیورسٹیوں میں سے 18 جامعات میں نئے خالی وائس چانسلروں کی تقرری عمل میں لائی گئی‘ البتہ اس عمل میں بعض نئی باتیں بھی سامنے آئیں‘ یعنی یکم فروری2024ء کو اس وقت کی اکیڈمک سرچ کمیٹی نے ہر یونیورسٹی کیلئے تین ناموں پر مشتمل جو لسٹ یا فہرست حکومت کے حوالے کی تھی حکومت نے یہ کہتے ہوئے اسے سرد خانے میں ڈال دیا تھا کہ نگراں حکومت کی تقرریاں یا سرچ کمیٹی کا عمل یا پراسس انہیں قبول نہیں‘ بعدازاں جب امیدواروں نے معاملے کو عدلیہ میں اٹھا یا تو حالیہ تقرریاں عمل میں لائی گئیں مگر عجیب بات یہ تھی کہ تقرری کے باقاعدہ اعلامیہ سے قبل امیدواروں کوآفر لیٹر بھجوادیا گیا‘ ارے بھئی جو لوگ بطور امیدوار اس پراسس میں شامل رہے‘انٹرویو ہوئے‘ شارٹ لسٹنگ کے مرحلے سے گزرے اور پھر جب معاملہ لٹک گیا تو عدلیہ سے رجوع کیا گیا تو پھر آفر لیٹر بھیج کر امیدوار کی رائے معلوم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ دوسری بات یہ کہ تقرری کے اعلامیہ میں وائس چانسلر شپ کی مدت یا ٹینور دو سال رکھا گیا ہے جبکہ مزید دو سال کی ممکنہ توسیع کے لئے کارکردگی کی
شرط عائد کی گئی ہے‘ جامعات سے میری 25سالہ وابستگی‘ مشاہدے اور اندازے کے مطابق تو ایک ایسی حالت میں جب ایکٹ میں نت نئی ترامیم کی زنجیروں میں وائس چانسلر کو جکڑا گیا ہو اورمالی حالت یہ ہو کہ تنخواہوں اور پنشن کیلئے پیسے نہ ہوں تو ایسے وائس چانسلر کی کارکردگی کیسی اور کیا ہوگی؟ حکومت نے جن اٹھارہ وائس چانسلروں کا تقرر کیا ہے ان میں چار وائس چانسلر ایسے بھی ہیں جن کا تعلق جامعہ پشاور سے ہے اور جنہیں ہیٹ ٹرک یا تیسری مرتبہ وائس چانسلر بننے کا اعزاز حاصل ہوا ہے مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد جہانزیب‘ ڈاکٹر جوہر علی‘ ڈاکٹر سردار خان اور ڈاکٹر غزالہ نظام موجودہ حالات میں کارکردگی کی بنیاد پر کس حد تک حکومت کی شرائط اور توقعات پر پورا اترتے ہیں؟ ان میں ڈاکٹر جہانزیب اور ڈاکٹر جوہر علی کو تو ٹیچرز کمیونٹی کی قیادت اور ڈین شپ کا اعزاز بھی حاصل ہے‘ اب ایسے میں جب پشاور یونیورسٹی نے وفاقی گرانٹ سے اپریل کی تنخواہیں ادا کردیں اور آئندہ مہینوں کیلئے مالی وسائل کی دستیابی کے بارے میں کوئی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی اور ساتھ ہی پنشنرز اپنے کروڑوں روپے کے بقایا جات کیلئے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق سڑکوں پر نکلنے کیلئے پرتول رہے ہوں تو مسئلے کا حل کیا اور کیسے ممکن ہوگا؟ ہرچند کہ جامعات کے چانسلرنے حال ہی میں یونیورسٹیوں کی پنشن کے بوجھ کو حکومتی ذمے میں ڈالنے اور صوبائی بجٹ میں شامل کرنے کیساتھ ساتھ بجٹ میں چار سو ارب روپے مختص کرنے کااعلان کیا ہے مگر گزشتہ اعلانات پر عملدرآمد نہ ہونے اور جامعات کے معاملات میں حکومتی عدم دلچسپی کے سبب بے یقینی کی جو لہر پائی جاتی ہے وہ سوال بھی جواب طلب ہے باقی رہا جامعہ کے اساتذہ کی گزشتہ آٹھ سال سے رکی ہوئی ترقیوں کامسئلہ؟ یہ درست ہے کہ ذرائع کے مطابق کوئی تحریری این او سی (نان ابجکشن سرٹیفیکیٹ) نہ ملنے کے باوجود فیکلٹی کی خالی آسامیاں مشتہر کردی گئی ہیں مگر یہ بات وثوق
سے نہیں کہی جا سکتی کہ محکمہ اعلیٰ تعلیم گزشتہ کی طرح اس بار اس عمل کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا بعض معاملہ فہم لوگوں کی یہ بات بجا لگتی ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے جامعات کے قواعد و ضوابط کا چہرہ بگاڑنے کی جو پریکٹس کی جارہی ہے اس کے ہوتے ہوئے یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر‘رجسٹرار اور ٹریژرر شپ سے دور رہنا ہی دانشمندی ہوگی لہٰذا دعایہ ہے کہ نئے وائس چانسلر صاحبان بالخصوص جنہیں پرانی یونیورسٹیوں کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے اپنی محنت اور خدمت گزاری میں کامیاب ہوں‘ بصورت دیگر ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں ایک ایسا وقت آجائے کہ وائس چانسلر شپ کے لئے کوئی بھی امیدوار میدان میں موجود نہ ہوگا یہ بات قابل غور ہے کہ جامعہ پشاور کو سال رواں کی تین مہینوں کی جو قسط ملی تھی وہ ایک مہینے کی نذر ہوگئی ہے اب یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ اپریل کے بعد مئی اور پھر جون آئینگے جن کی گرانٹ دوسری قسط میں دی گئی ہے تو تنخواہوں پنشن اور دوسرے متفرقہ اخراجات کا کیا بنے گا؟ جبکہ کروڑوں روپے پنشن بقایا جات تو الگ سے ایک نہ اٹھانے والا بوجھ ہے ہاں فرمز اور اخبارات کے کروڑوں روپے کے واجب الادا بل اس کے علاوہ ہیں۔