سات مئی کی علی الصبح پاکستان کے خلاف تسلط پسند اور ہندوتوا پر مبنی بھارت کی جانب سے بلا اشتعال فضائی حملے اور اس کے بعد پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے خلاف اس کے معاندانہ اقدامات نے ایک بار پھر پاکستان کی سلامتی اور معاشی خوشحالی کو درپیش سنگین خطرات کی نشاندہی کی ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اور مسلح افواج نے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا‘ جس کی بھارت کو قطعی توقع نہ تھی اور یہی وجہ ہے کہ بھارت کی خواہش پر دس مئی کو جنگ بندی ہوئی تاہم پاکستان کے پالیسی سازوں کو بھارت کی جانب سے درپیش خطرے کی حقیقی نوعیت کو سمجھنا چاہئے اور اس پر قابو پانے کے لئے مناسب پالیسیاں اپنانا ہوں گی۔ اب تک، عام طور پر یہی تسلیم کیا جاتا رہا کہ بھارت کا بنیادی اسٹریٹجک مقصد جنوبی ایشیا اور بحرہند کے علاقوں میں تسلط قائم کرنا ہے۔ یہ مشکوک ہے کہ حال ہی میں پاکستان کے ساتھ جھڑپوں میں بھارت کو جس شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے‘ اُس کی وجہ سے بھارت اپنے اس مقصد کو چھوڑنے پر رضامند ہو جائے گا۔ بھارت چین پر بھی دباو¿ ڈالنا چاہتا ہے اور وہ چین کو جنوبی ایشیا میں اپنے تسلط پسندانہ عزائم کی تکمیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ یہ عنصر مستقبل قریب میں دونوں ممالک کے درمیان تنا¶ اور تنازعات کا مرکز رہا ہے۔ مودی کی زیر قیادت بی جے پی نامی جماعت معاشرے میں ہندوتوا کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا نتیجہ ہے اور اِس حکمراں جماعت نے مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر رکھی ہے بلکہ مسلم اکثریتی پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات میں مذہبی دشمنی اور اشتعال انگیزی کے عناصر بھی شامل کر دیئے ہیں۔ مودی کا مسلم مخالف ٹریک ریکارڈ تعجب کی بات نہیں، جس میں 2002ءمیں گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ان کے دور میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام اور مسلم مخالف تعصب رکھنے والی ہندو عسکریت پسند تنظیم آر ایس ایس کے ساتھ ان کی تاحیات وابستگی شامل ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت ذات پات کے نظام کا نام ہے جس میں سماجی مساوات اور انسانی بھائی چارے جیسے مسلم نظریات کے ساتھ ہم آہنگی نہیں بلکہ ان میں فطری اور نظریاتی تضاد پایا جاتا ہے۔ یہ ثقافتی اختلافات پاک بھارت تعلقات پر اس وقت تک اپنا سایہ ڈالتے رہیں گے جب تک ہندوتوا بھارتی سیاست میں ایک طاقتور قوت رہے گا۔ کشمیر، سندھ طاس معاہدہ اور دیگر تصفیہ طلب پاک بھارت تنازعات دونوں ممالک کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب کرتے رہے ہیں۔ مودی کے دور حکومت میں پانچ اگست 2019ءکو بھارتی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے انتہائی اقدامات کی وجہ سے تنازعہ کشمیر پہلے سے کہیں زیادہ حل سے دور ہو گیا ہے۔ جہاں تک سندھ طاس معاہدے کا تعلق ہے تو اسے یک طرفہ اور غیر قانونی طور پر معطل کرکے بھارت نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔ حکومت پاکستان نے بھارت کو درست متنبہ کیا ہے کہ اس کی جانب سے دریا¶ں کے پانی کو روکنے یا اس کا رخ موڑنے کی کسی بھی کوشش کو جنگ کی کاروائی سمجھا جائے گا۔ بھارت کی جانب سے بلوچستان اور ہمارے قبائلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر دہشت گرد کاروائیوں کی سرپرستی نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور تنازعات کے زہریلے مرکب میں طاقتور منفی عنصر کا اضافہ کیا ہے۔پاکستان کو بھارت کی طرف سے درپیش خطرات کے بارے میں کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے اگرچہ جنگ بندی جاری ہے لیکن یہ سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر جاوید حسین۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
نئی دہلی میں حکومت کی نوعیت پر منحصر پاک بھارت تعلقات میں عارضی نشیب و فراز کے باوجود، پاکستان کے لئے بھارتی دھمکی چیلنج ہے اور چیلنج رہے گا۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کو اپنی سلامتی کو لاحق کسی بھی فوری خطرے سے بچنے کے لئے جوہری صلاحیت سمیت قابل اعتماد سکیورٹی ڈیٹرنٹ کو برقرار رکھنا چاہئے جبکہ کشیدگی کم کرنے، سی بی ایم اپنانے اور زیر التواءتنازعات حل کرنے کی کوشش میں بھارت کو بات چیت پر مجبور کرنا چاہئے۔پال کینیڈی نے اپنی مشہور کتاب ’عظیم طاقتوں کا عروج اور زوال‘ میں لکھا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی طرح قوموں کے درمیان کسی بھی طویل مدتی مقابلے کا فیصلہ بالآخر معاشی طاقت کے توازن سے ہوتا ہے۔ سوویت یونین روایتی یا جوہری ہتھیاروں کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی معاشی کمزوری کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔ اس کی کمزور معاشی بنیاد اس کے بھاری فوجی ڈھانچے کو برقرار نہیں رکھ سکی۔“ لہٰذا بھارت کی جانب سے درپیش سلامتی کے خطرے کی پائیدار اور سنجیدہ نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی معاشی و تکنیکی طاقت اور سائنسی ترقی دونوں ممالک کے درمیان طویل المیعاد مقابلے کے نتائج کا تعین کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔ بھارت کی جانب سے درپیش طویل مدتی خطرے کے پیش نظر حکومت پاکستان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنی سلامتی کو درپیش قلیل مدتی خطرات سے بچنے کے لئے قابل اعتماد سکیورٹی ڈیٹرنس قائم کرے۔ طویل مدتی سلامتی حاصل کرنے کے لئے معاشی و تکنیکی ترقی اور سائنسی ترقی میں تیزی لانے کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت صرف اسی صورت میں ہونی چاہئے جب یہ یکساں فوائد کی حامل ہو جہاں تک علاقائی اقتصادی انضمام کا تعلق ہے تو پاکستان کو بھارت کے بجائے اقتصادی تعاون تنظیم کے فریم ورک کے اندر اپنے مغربی اور شمالی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔