جب 2015 ء میں پاکستان نے نیٹ میٹرنگ کا قانون متعارف کرایا تو یہ ایک خاموش انقلاب کی مانند تھا۔ اس قانون نے عوام اور کاروباری طبقے کو یہ اختیار دیا کہ وہ اپنی چھتوں پر سولر پینل نصب کریں اور اضافی بجلی قومی گرڈ کو فروخت کر کے وہی قیمت وصول کریں جو وہ خود بجلی خریدنے پر ادا کرتے تھے۔ توانائی کی قلت، درآمدی ایندھن پر انحصار اور بڑھتے ہوئے بلوں سے تنگ عوام کیلئے یہ ایک بڑی امید کی کرن تھی۔ اس اقدام نے پاکستان میں توانائی کے شعبے میں نیا دروازہ کھولا اور عوام نے بڑی تیزی سے شمسی توانائی کو اپنایا۔درآمدی اعداد و شمار کے مطابق 2024 ء میں پاکستان نے 22 گیگاواٹ کپیسٹی کے سولر پینلز درآمد کیے، جو کہ ملک کی مجموعی نصب شدہ بجلی کی استعداد (46 گیگاواٹ)کا تقریباً نصف ہے۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نیٹ میٹرنگ نے کس حد تک عوام کو اپنی طرف راغب کیا۔ نیپرا کے مطابق ملک میں نیٹ میٹرنگ کے تحت شمسی بجلی کی تنصیب 4 گیگاواٹ سے تجاوز کر چکی ہے، جس میں ایک تہائی سے زیادہ حصہ صرف 2024 ء میں شامل کیا گیا۔ اس کامیابی کا ایک بڑا حصہ صنعتی اور کمرشل صارفین کے نام رہا، جنہوں نے نہ صرف سولر ٹیکنالوجی کو اپنایا بلکہ اپنے اداروں کے بجلی کے اخراجات میں نمایاں کمی بھی کی۔مگر اس تیز رفتاری سے جڑا ایک خاموش مسئلہ بھی ہے جسے 'stranded cost' کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں (DISCOs) اپنی لاگت کی وصولی فی یونٹ بیچی گئی بجلی کے ذریعے کرتی ہیں۔ جیسے جیسے زیادہ صارفین اپنی بجلی خود پیدا کرنے لگے، کمپنیوں کی فروخت شدہ بجلی یونٹ کی مقدار کم ہونے لگی۔ مگر گرڈ کا انفراسٹرکچر جیسے پول، تاریں، سب اسٹیشنز برقرار رہا اور اس کے ساتھ اس کے اخراجات بھی وہی رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بقیہ صارفین پر فی یونٹ لاگت بڑھنے لگی، جس سے بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوا۔ یہی اضافہ نئے صارفین کو سولر کی جانب مزید مائل کرتا ہے اور یوں یہ ایک ایسا 'death spiral' بن جاتا ہے جہاں گرڈ سے جڑے رہنا خود صارفین کیلئے مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔اس وقت پاکستان کا بجلی کا نظام سنگل بائر(ایک خریدار)ماڈل پر کام کرتا ہے جہاں CPPA-G بجلی پیدا کرنے والوں سے معاہدے کرتا ہے اور DISCOs صارفین کو بجلی فراہم کرتی ہیں۔ جیسے ہی صارفین سولرکا نظام اپناتے ہیں، DISCOs کی آمدن گھٹتی جاتی ہے، جبکہ ان کے اخراجات کم نہیں ہوتے۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے باقی صارفین پر بوجھ ڈالا جاتا ہے، جس سے بجلی مزید مہنگی ہوتی ہے اور باقی لوگ بھی گرڈ سے دور ہونے لگتے ہیں۔اسی صورتحال کے پیش نظر نیپرا نے نیٹ میٹرنگ کو نیٹ بلنگ میں تبدیل کرنے کی تجویز دی۔ نیٹ بلنگ کے تحت صارفین کو ان کی گرڈ کو فراہم کی گئی اضافی بجلی کی ادائیگی 'avoided cost' پر کی جائے گی، یعنی اتنی رقم جتنی DISCOs کو خود بجلی پیدا کرنے یا خریدنے میں لگتی ہے۔ یہ رقم 11 سے 12 روپے فی یونٹ بنتی ہے جو وقت کے ساتھ کم یا زیادہ ہوتی ہے، جبکہ صارفین 27 روپے یا اس سے زیادہ میں بجلی خریدتے ہیں۔اس تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ جن صارفین نے 1سے 2 سال میں سولر نظام سے اپنی لاگت پوری کرنی تھی، اب انہیں 4 سے 5 سال انتظار کرنا پڑے گا۔ اس کا سب سے بڑا اثر نئے خریداروں پر پڑے گا، جو اب شاید سادہ سولر نظام کی جگہ بیٹری کے ساتھ ملے جلے ماڈلز کا انتخاب کریں۔ امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں جب NEM 3.0 کے تحت نیٹ بلنگ متعارف کرائی گئی تو سولر لگانے کے رجحان میں کمی آئی لیکن بیٹری سٹوریج کپیسٹی لگانے میں اضافہ ہو گیا، لگتا ایسا ہے کہ پاکستان میں بھی یہی رجحان متوقع ہے۔یہاں مسئلہ صرف معاوضے کا نہیں، بلکہ بجلی کے شعبے کی پالیسی میں مسلسل تضاد کا بھی ہے۔ پہلے حکومت نے عوام کو سولر کی طرف جانے کی ترغیب دی اور اب وہی حکومت نیٹ میٹرنگ کے فوائد کم کر کے اس سے دور کر رہی ہے۔ راولپنڈی چیمبر آف کامرس سمیت کئی تجارتی باڈیزاس تبدیلی کو غیراعلانیہ ”یو ٹرن“قرار دے چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے حکومت نے صارفین کو کہا کہ سولر لگائیں، اب کہہ رہی ہے کہ معاوضہ آدھا کر دیں گے‘ اس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے اور معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے۔یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں۔ جنوبی افریقہ میں سرکاری کمپنی Eskom بھی اسی بحران کا شکار ہوئی۔ وہاں صارفین نے مہنگی بجلی سے تنگ آ کر سولر اپنانا شروع کیا اور کمپنی کا خسارہ 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ انڈیا میں ریاستوں نے مختلف طریقے اپنائے ہیں۔ کچھ نے نیٹ میٹرنگ جاری رکھی، کچھ نے نیٹ بلنگ اور مشترکہ ماڈلز متعارف کرائے۔ کچھ ریاستیں تو صارفین کو ایک دوسرے کو بجلی بیچنے کی سہولت بھی دے رہی ہیں۔پاکستان کو اس وقت صرف نیٹ بلنگ پر توجہ دینے کے بجائے پورے توانائی نظام کی اصلاح کرنی ہو گی۔ DISCOs کو چاہیے کہ وہ اپنے نقصانات کم کریں، میٹرنگ اور بلنگ نظام کو جدید بنائیں اور بجلی کی چوری روکیں۔ جب تک بجلی کی بنیادی لاگت کم نہیں ہوتی، عوام کسی نہ کسی متبادل کی تلاش میں رہیں گے۔ نیٹ بلنگ سے وقتی طور پر DISCOs کو ریلیف ملے گا، مگر اگر اصلاحات نہ ہوئیں تو صارفین کا اعتماد اور بھی کم ہو جائے گا۔ پاکستان میں بیٹری سٹوریج کی ٹیکنالوجی تیزی سے سستی ہو رہی ہے اور لیتیئم آئن بیٹریز اب عام صارفین کی پہنچ میں آ رہی ہیں۔ دن میں بننے والی بجلی کو اسٹور کر کے شام کو استعمال کرنا صارف کو مہنگی بجلی سے بچا سکتا ہے۔ یہ نہ صرف صارفین کیلئے فائدہ مند ہے بلکہ گرڈ کے دباؤ کو بھی کم کرتا ہے۔ یہی وہ سمت ہے جہاں دنیا جا رہی ہے اور پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ اس میں پیچھے نہ رہے۔بجلی صارفین کیلئے یہ وقت اہم ہے اگر وہ سولر اپنانا چاہتے ہیں تو سسٹم کا سائز اپنے زیادہ سے زیادہ استعمال کے مطابق رکھیں۔ دن کے وقت زیادہ سے زیادہ بجلی خود استعمال کریں تاکہ گرڈ کو کم بیچنا پڑے۔ بیٹری کو اپنی سولر تنصیب کا حصہ ضرور بنائیں تاکہ شام کو مہنگی بجلی نہ خریدنی پڑے اور سب سے اہم بات، اپنی پیداوار اور بلنگ پر مسلسل نظر رکھیں تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ آپ کی سرمایہ کاری کا کیا فائدہ ہو رہا ہے۔یہ سفر ابھی مکمل نہیں ہوا۔ پاکستان کے توانائی کے نظام میں بہتری صرف پالیسیاں بدلنے سے نہیں آئے گی، بلکہ ان پر عمل درآمد، شفافیت اور دور اندیشی سے ہی ہم ایک مضبوط اور خود مختار توانائی نظام کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔