لاچن (Lachin) میں سہ فریقی سربراہی اجلاس اپنی جگہ اہم لیکن اِس کے کئی پہلو پوشیدہ ہیں جن کا ذکر شہ سرخیوں میں نہیں آیا۔ مذکورہ اجلاس سے متعلق جہاں میڈیا کوریج میں پاکستان، ترکی اور آذربائیجان کے درمیان دفاعی تعاون اور سرمایہ کاری کے معاہدوں پر توجہ مرکوز رہی وہیں وزیر اعظم شہباز شریف نے نتیجہ خیز پیغام دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ رعایت کے طور پر نہیں بلکہ اسٹریٹجک آپشن کے طور پر بات چیت کے لئے تیار ہے۔ یہ پاکستان کے دیرینہ مؤقف میں تبدیلی نہیں بلکہ وضاحت ہے کیونکہ طویل عرصے سے جنوبی ایشیا پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ تجارت معطل ہونے، سفارت کاری منجمد ہونے اور دشمنی کے معمولات کی وجہ سے یہ خطہ ایک ایسے دور میں چلا گیا ہے جہاں غیر فعالیت کو حکمت عملی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ سال دوہزاراُنیس سے پہلے باہمی شکوک و شبہات کے باوجود ہلچل رہی تھی۔ واہگہ اٹاری کوریڈور کے ذریعے سرحد پار محدود تجارت نے سیالکوٹ اور فیصل آباد جیسے مقامات پر برآمد کنندگان کو بھارتی منڈیوں تک رسائی کی اجازت دی۔ تجارتی حجم معمولی تھا لیکن انہوں نے معاشی سرگرمیوں کی حمایت کی اور ایک دوسرے پر معاشی انحصار قائم کیا۔ بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370کے خاتمے اور یک طرفہ طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد اس تعاون کا خاتمہ ہو گیا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے باضابطہ تجارت معطل اور سفارتی تعلقات کم کر دیئے۔پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں سردمہری رہی جو علامتی نہیں۔ یہاں مجموعی تجارتی حجم کے لحاظ سے جنوبی ایشیائی تجارت کا حصہ پانچ فیصد سے بھی کم ہے جبکہ جنوب مشرقی ایشیا میں یہ تناسب تیس فیصد سے زیادہ ہے۔ یہ اعداد و شمار اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ نظریاتی خسارہ نہیں بلکہ اس کی وجہ سے کم ملازمتیں، مہنگی درآمدات اور ضائع ہونے والے ترقیاتی امکانات ہیں۔ وزیر اعظم کے ریمارکس کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ انہوں نے پاکستان کے دیرینہ مؤقف کا اعادہ کیا ہے کہ کسی بھی بات چیت میں کشمیر شامل ہونا چاہئے۔ یہ مسئلہ کسی بھی پائیدار امن عمل کا مرکزی نکتہ رہتا ہے لیکن وزیراعظم کے ریمارکس نے ایک وسیع تر ویژن کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ ایک ایسا خطہ جسے اپنے معاشی مستقبل کو مکمل طور پر اپنے سیاسی تنازعات سے جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہئے۔خطے کی سب سے بڑی معیشت ہونے کے ناطے بھارت کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان کے پیغام کی تشریح کیسے کرتا ہے۔ اگر بھارت عالمی قیادت چاہتا ہے تو وہ اپنے ہمسایہ ممالک کو نظر انداز کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بڑی طاقتیں پیچھے نہیں ہٹتیں۔ معمولی سی پیش رفت سے بھی خطے کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ تجارت کی بحالی سے دونوں اطراف پر افراط زر (مہنگائی) کا دباؤ کم ہوسکتا ہے اور یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ممالک کے درمیان راتوں رات تعلقات بہتر نہیں ہوتے بلکہ اُس کے لئے چھوٹی چھوٹی کوششیں کرنا ہوتی ہیں۔پاکستان کی جانب سے وزیر اعظم کا پیغام پراعتماد ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے جس کی ہر ملک نے تعریف کی ہے کیونکہ یہ مبہم پیغام نہیں بلکہ امن کی خصوصی کال ہے۔ پاکستان بات چیت کے لئے تیار ہے بشرطیکہ بات چیت سنجیدہ، منظم اور حقیقت پر مبنی ہو۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ وہ خاموش حکمت عملی پر یقین نہیں رکھتا ہے۔ پاکستان کے پاس آپشنز ہیں اور وہ ان پر عمل کر رہا ہے لیکن یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ علاقائی امن کو ہمیشہ کے لئے ملتوی نہیں کیا جا سکتا۔ جنوبی ایشیائی باشندوں کی ایک نسل پروان چڑھ رہی ہے جسے خطے کے دو سب سے بڑے ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات یاد نہیں۔ یہ صرف سفارتی ناکامی نہیں بلکہ تخیل کی ناکامی بھی ہے۔ اگر بھارت بات چیت پر رضامند ہوتا ہے تو اِس سے اختلافات فوری طور پر ختم نہیں ہوں گے تاہم امن کی جانب پیشرفت ضرور ہو گی۔ پاکستان نے دنیا کے سامنے اپنی دلی خواہش کا اظہار کر دیا ہے اور اِس مرحلہئ فکر پر اہم سوال یہ ہے کہ بھارت پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی اس پرخلوص پیش کش کا کیا جواب دیتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ایم عمر۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)