ماں کی محبتوں‘ قربانیوں اور صعوبتوں کی کہانیاں ہم نے ہمیشہ سنی ہیں‘ آج میں آپ کو باپ کی محبتوں اور اولاد کی ذمہ داریوں کے بارے میں کچھ چھوٹی چھوٹی کہانیاں سنانے والی ہوں‘ بہتر ہے میں ایک بیٹے کے الفاظ میں ہی آپ کو پہلی کہانی سناؤں۔ میرا باپ جیسے جیسے بوڑھے ہوتا گیا کمزور ہوتا گیا‘ میں ہمیشہ ان کا خیال کرتا‘ وقت پر دوائی دیتا‘ ان کی خوراک کا خیال رکھتا تھا۔ میرے والد جب بھی چلتے تو دیوار کا سہارا لے کر واک کرتے‘ ایسے میں ان کو ایک سپورٹ ملتی رہتی کہ وہ گریں گے نہیں اور محفوظ رہیں گے۔ میں نے دیکھا دھیرے دھیرے ان کے ہاتھوں کے نشانات دیواروں پر پڑنے لگے لیکن مجھے ان باتوں کی نہ پرواہ ہوئی اور نہ خیال آیا‘ دیواریں ہی تو ہیں نشانات ہیں مٹ جائیں گے‘ یہ نشانات واضح طور پر میرے والد کی کمزوری‘ نقاہت اور دیواروں کے سہاروں کے ساتھ چلنے کو ظاہر کرتے تھے‘ میری بیوی کو دیواروں پر یہ نشانات برے لگتے تھے‘ وہ مجھ سے اکثر ہی شکایت کرنے لگی کہ تمہارے باپ کی اس عادت نے میری صاف ستھری دیواروں کو گندا کر دیا ہے‘ میں نے زیادہ پرواہ نہ کی اور بات کو ٹال دیا۔ ایک دن میرے والد کو سر درد تھا‘ انہوں نے تیل لے کر اپنے سر پر لگایا جیسے کہ میری ماں ان کو سر پر مساج کرتی تھی بالکل اسی طرح انہوں نے آہستہ آہستہ سارے بالوں پر مالش کی کہ ان کے سر درد کو افاقہ ہو‘ اس کے کچھ دیر بعد انہوں نے حسب معمول لاؤنج میں اپنی واک شروع کی‘ میرے پاس وقت نہیں تھا کہ میں ان کو ہاتھ سے پکڑ کر سپورٹ دوں‘ ڈاکٹر کی ہدایات بھی تھیں کہ وہ ضروری ہلکی پھلکی واک کریں‘ تیل والی انگلیوں کے نشانات دیواروں پر واضح نظر آنے لگے‘ میری بیوی کا پارہ ہائی ہو گیا‘ اس نے مجھ سے چیخ کر شکایت کی اور اس کے نتیجے میں اپنے والد پر میں برسنے لگا اور ان کو سخت ترین الفاظ میں دیواروں کو پکڑنے اور واک کرنے کی ممانعت کر دی‘ میرے والد نے حیران آنکھوں سے مجھے دیکھا اور ایک دم خاموش ہو گئے‘ ان کی آنکھوں میں درد تھا‘ آنسوؤں کی نمی تھی میں خود ہی شرمندہ ہو رہا تھا‘ یہ بات میں غصے کی بجائے آرام سے بھی کر سکتا تھا لیکن میرے سر پر بیوی کی محبت اور شکایت سوار ہو چکی تھی میں نے خاموشی سے والد کے کمرے کو چھوڑ دیا اور باہر نکل گیا‘ اس دن کے بعد میرے والد نے دیواروں کا سہارا لینا چھوڑ دیا‘ ایک دن کے بعد وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور بری طرح گر
گئے‘ ان کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں معلوم ہوا ان کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے‘ ان کی سرجری ہوئی لیکن وہ اتنے بزرگ اور کمزور تھے کہ صحت یاب نہیں ہو سکے چند دن بعد ہسپتال کے اس بستر پر انہوں نے دم توڑ دیا۔ میرا دل بھی ان کے مرنے کے بعد کرچیوں میں ٹوٹ گیا‘ ایک ایسی تحقیر میں نے اپنے لئے اپنے دل میں محسوس کی‘ میرے بیٹے ہونے پر مجھے شرمندگی ہوئی‘ میں بعد میں آنے والے دنوں میں ان کی آنکھوں کا درد‘ ان میں آنسو کبھی نہ بھلا سکا نہ ہی اپنے آپ کو معاف کرنے کے قابل ہوا۔ کچھ دنوں کے بعد میری بیوی نے فیصلہ کیا کہ گھر کو پینٹ کیا جائے تاکہ نہ صرف انگلیوں کے یہ نشانات مٹ جائیں بلکہ گھر بھی صاف ستھرا ہو جائے‘ جب ہمارے گھر میں پینٹر آیا میرے بیٹے نے پینٹر کو ان تمام
نشانات کو مٹانے اور پینٹ کرنے سے منع کر دیا‘ وہ اپنے دادا سے اس قدر محبت کرتا تھا کہ وہ ان کی انگلیاں اور نشانات دیواروں سے مٹانا نہیں چاہتا تھا‘ پینٹر نہ صرف سمجھدار تھا بلکہ تخلیقی طور پر بڑا مستعد تھا وہ بچے کی اپنے دادا کے ساتھ محبت کو سمجھ رہا تھا‘ اس نے میرے بیٹے کو یقین دلایا کہ وہ نشانات کو بالکل نہیں مٹائے گا بلکہ ان کو زیادہ خوبصورت اور نمایاں کرنے کے لئے خوبصورتی سے ان کے ارد گرد ڈیزائن بنائے گا اس طرح یہ سب انگلیاں دیواروں کا ایک حصہ لگنے لگیں گی اور اس نے ایسا ہی کیا۔ دن گزرتے گئے اور یہ انگلیوں کے نشانات ہمارے گھر کی پہچان بنتے گئے‘ جو جو بھی میرے گھر میں آتا ان نشانات کو محفوظ دیکھ کر ایک دفعہ تو تعریف کرنے پر مجبور ہو جاتا اور پھر وقت گزر گیا‘ ماہ و سال اڑ گئے‘ میں اب بوڑھا ہو گیا تھا‘ ایک دن جبکہ میں چل رہا تھا میں نے بھی دیوار کا سہارا لے لیا اور میری آنکھوں کے سامنے اپنے باپ کا چہرہ اور درد بھری آنکھیں پھر گئیں اور مجھے یاد آیا میں نے اپنے باپ سے کیا کہا تھا اور کس لہجے میں کہا تھا
اور میں کوشش کرنے لگا کہ دیوار کے سہارے کے بغیر چلوں‘ میرا بیٹا یہ سب دیکھ بھی رہا تھا اور میرے جذبات سمجھ بھی رہا تھا‘ اس نے مجھے دیکھ کر کہا پاپا دیوار کا سہارا لے لو آپ گر جاؤ گے اور ایک دم سے میری پوتی دوڑتی ہوئی آئی کہنے لگی دادا میرے کندھے کا سہارا لے لیں‘ آنسو میری آنکھوں سے بہنے لگے‘ میرا ان آنسوؤں پر کوئی اختیار نہ رہا‘ کاش میں بھی اپنے باپ کے لئے ایسا ہی کچھ کرتا‘ شاید وہ کچھ اور دن میرے ساتھ زندگی کے گزار لیتے۔ بچوں نے مجھے صوفے پر بیٹھنے میں سہارا دیا پھر میری پوتی اپنی ڈرائنگ کی کاپی میرے پاس لے آئی اس نے بتایا کہ اس کی ٹیچر نے میری ڈرائنگ کی بے انتہا تعریف کی اور میں سناٹے میں آ گیا وہ ڈرائنگ اس کے پردادا کے ان انگلیوں کے نشانات کی تھی جو دیواروں پر اپنا عکس ہمیشہ کے لئے چھوڑ گئے تھے۔ میری دوسری کہانی بھی باپ سے بے انتہا محبت کرنے والے دو کم سن بچوں کی ہے‘ لیفٹیننٹ کرنل راشد کی شہادت کے بعد ان کے بچے اپنے باپ کی جدائی کا غم برداشت نہ کر سکتے تھے اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر باپ کو ڈھونڈتے اور روتے رہتے تھے‘ ان کی ماں نے یعنی بیگم کرنل راشد شہید نے ایک انوکھا طریقہ ان کو دلاسہ دینے کے لئے نکالا انہوں نے اپنے شوہر کے فوجی یونیفارم کو ایک تکیے میں ڈال کر سی دیا‘ دونوں بچے تکیہ بیچ میں رکھ کر تکیے کو گلے لگا کر اپنے باپ کی خوشبو اور لمس کو محسوس کرتے اور گہری نیند سو جاتے۔ یہ سچ ہے کہ اولاد کے لئے ماں اور باپ دونوں ہی نہایت اہم ہوتے ہیں اور وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی بھی کمی کو نظر انداز نہیں کر سکتے‘ مرنے کے بعد اور زندہ ہوتے ہوئے بھی وہ ہمیشہ ماں باپ کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک خاتون نے اپنی بک پر بہت خوبصورت نوٹ لکھا تھا دل چاہا اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کروں۔ ”میں کبھی بھی کسی کو اپنی پریشانی کی جھریوں کو مٹانے نہیں دوں گی‘ یہ جھریاں زندگی کے حسن کے سامنے میرے حیرت زدہ ہونے کا نتیجہ ہیں‘ نہ ہی اپنے ہونٹوں کے ارد گرد کی لکیریں‘ کیونکہ یہ ظاہر کرتی ہیں کہ زندگی میں‘ میں نے کتنا ہنسا ہے‘ نہ ہی اپنی آنکھوں کے سیاہ حلقوں کو‘ کیونکہ ان کے پیچھے میرے دکھوں اور آنسوؤں کی یادیں چھپی ہوئی ہیں‘ یہ سب میرا حصہ رہیں اور میں ان کے حسن سے محبت کرتی ہوں‘ میں اپنے چہرے کے نشانات کو ہمیشہ کے لئے محفوظ رکھوں گی کیونکہ یہ زندگی کے میرے تجربات کی نشانیاں ہیں۔“