ماحولیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور روزگار کے بہتر مواقع کیلئے خیبر پختونخوا حکومت نے ملک میں سبز انقلاب کی قیادت کرتے ہوئے کئی انقلابی اقدامات کیے ہیں‘ ایک ارب درخت شجرکاری منصوبے (BTAP)کی کامیابی، 10 ارب درخت سونامی پروگرام (10BTTP) میں فعال کردار اور متعدد دیگر ماحولیاتی منصوبے اس بات کا ثبوت ہیں کہ خیبر پختونخوا نہ صرف ماحولیاتی احیاء بلکہ سماجی و اقتصادی ترقی کا ماڈل بن کر ابھرا ہے۔خیبرپختونخوا حکومت کے بلین ٹری ایفارسٹیش منصوبے (BTAP)کی کامیابی کو بنیاد بنا کر 2019میں قومی سطح پر 10ارب درخت سونامی پروگرام (BTTP)کا آغاز کیا گیا، جس کا مقصد جنگلات کی بحالی، موسمیاتی مزاحمت کو بہتر بنانا اور مقامی آبادی کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا تھا۔ خیبر پختونخوا میں اس منصوبے کے تحت 68 ہزار ہیکٹر پر شجرکاری‘6ہزار سے زائد قدرتی افزائش گاہیں اور 7ہزار سے زائد ہیکٹر پر براہ راست بیج بکھیرے گئے‘152ملین سے زائد مفت پودے تقسیم کیے گئے جبکہ ہزاروں دیہی خواتین، نوجوانوں اور مزدوروں کو روزگار فراہم کیا گیا۔ سکولوں، سول سوسائٹی اور شراکتی اداروں کی شمولیت نے ماحول دوست طرز زندگی اور اجتماعی ذمہ داری کے جذبے کو فروغ دیا۔خیبرپختونخوا حکومت کی بلین ٹری ایفارسٹیش منصوبے کی بدولت صرف شجر کاری نہیں ہوئی بلکہ مقامی معیشت اور ماحولیات کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا گیا‘13ہزار سے زائد نجی نرسریاں قائم کی گئیں، خواتین اور نوجوانوں کو تربیت دی گئی جس سے ہزاروں گرین جابز پیدا ہوئیں۔ منصوبے کے تحت 3 لاکھ 50ہزار ہیکٹر سے زائد رقبے پر شجرکاری کی گئی، جس نے پاکستان کے Bonn Challengeکے ہدف سے کہیں بڑھ کر نتائج دئیے۔ مقامی آمدنی میں اضافہ، ہنر کی ترقی، اور ماحولیاتی شعور کی بیداری اس منصوبے کے اہم نتائج ہیں۔ دریائے سندھ، کنہار اور سوات جیسے اہم علاقوں میں درختوں کی افزائش نے نہ صرف زمین کے کٹاؤ کو روکا بلکہ حیاتیاتی تنوع اور کاربن جذب کرنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ کیا۔بین الاقوامی سطح پر بھی اس کامیابی کو سراہا گیا۔ 2017میں IUCNکی ڈائریکٹر جنرل انگر اینڈرسن نے اپنے پیغام میں کہا کہ خیبر پختونخوا کی یہ کاوش ایک قابلِ تقلید ماحولیاتی کامیابی ہے، جو عالمی سطح پر پاکستان کی قیادت کا ثبوت ہے۔مالاکنڈ کے علاقے ہیرو شاہ کی تبدیلی اس منصوبے کی ایک زندہ مثال ہے‘ 2015اور 2016میں تقریباً 16ہزار مزدوروں نے 800ہیکٹر سے زائد رقبے پر درخت لگائے، جس سے نہ صرف علاقہ سرسبز ہوا بلکہ زمین کے کٹاؤ، سیلاب کے خدشات اور موسمی شدت میں کمی آئی‘ مقامی افراد نے ان درختوں سے معاشی فوائد بھی حاصل کیے اور ایندھن کے لئے درختوں کی کٹائی میں واضح کمی دیکھنے میں آئی۔خیبر پختونخوا حکومت کی سبز حکمتِ عملی کی ایک نمایاں خصوصیت جدت پسندی ہے۔ محکمہ جنگلات نے جنوبی اضلاع میں ”فارسٹ نالج پارکس“قائم کیے جو ماحولیات، تعلیم اور آمدن کے پائیدار ذرائع کو یکجا کرتے ہیں‘ ان پارکس کے قیام سے اب تک قابل ذکر نتائج حاصل ہو چکے ہیں جن میں 85ہیکٹر پر مٹی کے تحفظ کے اقدامات‘40ہیکٹر پر بیج بکھیرنے اور پودے لگانے کی سرگرمیاں، 200مکعب میٹر پر مشتمل گببیئن ڈھانچوں کی تعمیر اور 11کلومیٹر طویل ایونیو شجرکاری شامل ہیں‘مزید یہ کہ 8ہیکٹر رقبے پر بیری اور زیتون کے نمائشی باغات، کیکٹس گارڈن اور نان ٹمبر فارسٹ پروڈکٹس (NTFP)کی افزائش کے پلاٹس بھی قائم کیے گئے ہیں۔ روزگار کے مواقع کو وسعت دینے کیلئے 50شہد کی مکھیوں کے چھتے، 26,000 فش فارم یونٹس، اور دو ”ایل ٹائپ“ وائلڈ لائف انکلوژرز بنائے گئے ہیں، جو حیاتیاتی تنوع کے فروغ میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں‘ دیگر اہم خصوصیات میں گرین ہاؤس، پرندوں کے لئے ایویری، ڈیجیٹل موسمیاتی اسٹیشن اور 4کلومیٹر طویل باڑ بھی شامل ہیں‘ یہ اقدامات مقامی آبادی اور نوجوانوں میں ماحولیاتی آگاہی بڑھانے کے ساتھ ساتھ شہد کی مکھیوں کی افزائش، مچھلی فارم، جنگلی حیات کے انتظام اور ماحولیاتی تعلیم کے ذریعے پائیدار آمدن کے ذرائع پیدا کر رہے ہیں۔ اس منصوبے سے مستفید ہونے والوں میں مقامی کمیونٹیز، نوجوان، محققین اور جنگلات کے ماہرین شامل ہیں، جو بہتر ماحولیاتی سہولیات، موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف مزاحمت، اور پائیدار آمدن کے مواقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں‘فارسٹ نالج پارکس کو ایسے متحرک مراکز کے طور پر تصور کیا گیا ہے جہاں عملی جنگلاتی تحقیق، ماحولیاتی شعور کی بیداری، اور موسمیاتی لحاظ سے موثر اقدامات کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ یہ پارکس خطے میں تحفظ ماحول اور پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں براہ راست کردار ادا کر رہے ہیں۔ضم شدہ اضلاع میں تیز تر عملدرآمدی پروگرام (AIP) کے تحت ”انٹیگریٹڈ ڈیولپمنٹ فاریسٹری سیکٹر پراجیکٹ“ ماحولیاتی تحفظ اور ترقیاتی اہداف کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد خیبر پختونخوا کے ضم اضلاع میں جنگلات کے رقبے میں اضافہ اور قدرتی وسائل کے پائیدار استعمال کو فروغ دینا ہے، تاکہ مقامی آبادی کی لکڑی، ایندھن، چراگاہوں اور طبی پودوں کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ اس کے اہم مقاصد میں 6,000ہیکٹرز پر شجرکاری، نان ٹمبر فارسٹ پروڈکٹس (NTFPs)کا فروغ، عملے کی استعداد کار میں اضافہ، اور ایکو ٹورزم کی ترقی شامل ہیں‘ اس منصوبے سے فائدہ اٹھانے والوں میں مقامی کمیونٹیز، چھوٹے کسان، چرواہے، اور جنگلات پر انحصار کرنے والے گھرانے شامل ہیں، جنہیں بہتر روزگار، موسمیاتی استحکام اور جنگلاتی وسائل تک رسائی حاصل ہو رہی ہے۔منصوبے کے آغاز سے اب تک 1,888 ہیکٹرز پر شجرکاری مکمل ہو چکی ہے‘ 5.12ہیکٹرز پر نرسریاں قائم کی گئی ہیں اور 775,000 پودے حاصل کئے جا چکے ہیں‘خشک علاقوں میں خندقوں اور پہاڑی کھائیوں کے ذریعے شجرکاری 55ہیکٹرز پر کی گئی، جبکہ 15ہیکٹرز پر ندی کناروں کو مستحکم کرنے اور 428 مکعب میٹر گیبیون ڈھانچے تعمیر کئے گئے‘ ایونیو پلانٹیشنز 114 کلومیٹر تک محیط ہیں، جبکہ 297ہیکٹرز کو روٹیشنل چراگاہوں کے طور پر منظم کیا گیا ہے‘ دیگر اقدامات میں پانی کے تالابوں کی تعمیر، جانوروں کے شیڈز اور نمک دینے کے پوائنٹس، زمینوں کا حصول، چیک پوسٹوں کا قیام اور جامع ابتدائی سروے شامل ہیں۔ یہ تمام کوششیں ضم اضلاع میں ماحولیاتی نظام کی بحالی اور سماجی و معاشی بہتری میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔دوسری جانب محکمہ جنگلات طویل المدتی پائیداری کے عزم کو برقرار رکھتے ہوئے فارسٹ نالج پارکس، ٹین بلین ٹریز شجرکاری اور دیگر اہم منصوبوں کے ذریعے ماحولیاتی اور معاشی چیلنجز کا جنگلات پر مبنی حل وسیع پیمانے پر متعارف کرا رہا ہے۔ یہ منصوبے ادارہ جاتی صلاحیت میں بہتری کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی اور تعلیمی اداروں کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دے رہے ہیں تاکہ ماحول دوست طرز فکر کو پروان چڑھایا جا سکے۔ ٹین بلین ٹریز منصوبے میں 27.6ارب روپے سے زائد کی سرمایہ کاری اور 2028ء تک کے اہداف کے ساتھ خیبر پختونخوا خود کو پاکستان میں ماحولیاتی استحکام اور پائیدار جنگلاتی ترقی کے ایک مثالی ماڈل کے طور پر سامنے لا رہا ہے‘ماحولیاتی چیلنجز اور موسمیاتی خطرات کے پیش نظر خیبر پختونخوا حکومت کے یہ مربوط، موثر اور پائیدار اقدامات ایک امید افزا پیغام ہیں کہ درست حکمت عملی، عوامی شراکت اور سیاسی عزم کے ذریعے پاکستان کو ایک سرسبز اور محفوظ مستقبل کی جانب لے جایا جا سکتا ہے۔ (مضمون نگاروزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات ہیں)