حقیقت پسندی اور بدلتی لہریں

بین الاقوامی سیاست کے مسلسل بدلتے ہوئے منظرنامے میں مستقل اتحادیوں یا دائمی دشمنیوں کا تصور اکثر ایک فسانہ ثابت ہوتا ہے۔ جیسا کہ برطانوی وزیر خارجہ لارڈ پامر اسٹن نے ایک بار کہا تھا: ”ہمارے کوئی دائمی اتحادی نہیں‘ نہ ہی کوئی مستقل دشمن۔ ہمارے مفادات دائمی اور ابدی ہیں‘ اور انہی مفادات کی پیروی ہمارا فرض ہے۔“ یہ تصور خارجی پالیسی میں حقیقت پسندانہ فکر کا بنیادی نکتہ ہے‘ جہاں قومی مفاد نظریاتی ہم آہنگی یا تاریخی وابستگی پر غالب آتا ہے‘ حالیہ جیو پولیٹیکل تبدیلیاں‘ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر روایتی سفارتکاری سے لیکر جنوبی ایشیا میں بدلتے ہوئے اتحاد تک‘ اس ابدی اصول کی طاقتور مثالیں پیش کرتی ہیں۔ ٹرمپ کا سعودی عرب کا دورہ‘ جو پروٹوکول‘ تقاریب اور شاندار استقبال سے بھرپور تھا‘ ایک واضح تضاد کی مثال تھا۔ ایک طرف امریکہ جو جمہوری اقدار کا علمبردار ہے‘ اور دوسری طرف سعودی عرب جہاں موروثی حکمرانی ہے لیکن دفاعی معاہدوں اور معاشی مفادات نے ان تمام اصولوں کو پس پشت ڈال دیا۔ ٹرمپ نے حتیٰ کہ سعودی عرب کو مشرق وسطیٰ کی ترقی کا ماڈل قرار دیا‘ جہاں معاشی خوشحالی کو عدم استحکام پر فوقیت حاصل ہے۔ اسی طرح شام کے صدر احمد الشراءسے ٹرمپ کی ایک غیر رسمی ملاقات‘ اگرچہ ایک سائیڈ لائن ایونٹ تھا‘ مگر اسکے اثرات خاصے گہرے تھے۔ ٹرمپ نے شام پر سے پابندیاں نرم کرنے کا عندیہ دیا تاکہ ملک کو ”امن کا موقع“ دیا جا سکے۔ جلد ہی یہ پابندیاں جزوی طور پر ختم بھی کر دی گئیں۔ بین الاقوامی تعلقات کے اس پیچیدہ شطرنجی کھیل میں شاید سب سے 
نمایاں مثال امریکہ اور طالبان کے مابین 2020ءمیں طے پانے والا دوحہ معاہدہ ہے۔ دو دہائیوں پر محیط جنگ‘ ہزاروں جانوں کے ضیاع اور اربوں ڈالر کے اخراجات کے بعد‘ امریکہ نے اسی گروہ سے مذاکرات کئے جسے وہ کبھی دہشت گرد قرار دے کر ختم کرنا چاہتا تھا۔ افغان صدر اشرف غنی کو نظر انداز کر کے طالبان کو افغانستان کے مستقبل کا حصہ تسلیم کرنا کوئی 
نظریاتی تبدیلی نہیں بلکہ ایک حقیقت پسندانہ فیصلہ تھا‘ ایک طویل اور ناکام جنگ سے نکلنے کی کوشش۔ یہ رویہ صرف امریکہ تک محدود نہیں۔ چین کی حالیہ سفارتی سرگرمیاں بھی حقیقت پسندی کی مظہر ہیں۔ چین‘ پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کی بیجنگ میں ہونے والی سہ فریقی ملاقات ایک علاقائی حکمت عملی کی ازسرنو تشکیل تھی۔ تینوں ممالک نے اقتصادی اور سفارتی تعاون کے فروغ اور انسداد دہشت گردی پر مشترکہ موقف اپنایا۔ چین کیلئے یہ کوشش اس کے مغربی سرحدی علاقوں میں استحکام‘ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو(BRI) کی کامیابی‘ اور خطے میں حریف قوتوں کے اثر کو کم کرنے کی راہ ہموار 
کریگی۔ پاکستان کی اس اجلاس میں شرکت بھی ایک حقیقت پسندانہ حکمت عملی کا عکس ہے۔ کبھی امریکہ کی جنگ دہشت گردی میں صف اوّل کا اتحادی رہنے والا ملک اب اپنے سٹرٹیجک اور معاشی مفادات کے تحت علاقائی شراکت داری کی طرف بڑھ رہا ہے۔ طالبان کیلئے یہ موقع ہے کہ وہ بین الاقوامی تنہائی سے نکل کر چین اور پاکستان جیسے طاقتور ہمسایہ ممالک کیساتھ تجارتی راہداریوں‘ انفراسٹرکچر منصوبوں اور سفارتی قبولیت تک رسائی حاصل کریں۔ ایک بار پھر قومی مفاد تاریخی دشمنیوں یا نظریاتی اختلافات پر غالب آتا دکھائی دیتا ہے۔ ان تمام واقعات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں حقیقت پسندی کی فکر آج بھی نہایت متعلقہ اور کارآمد ہے‘ حقیقت پسندی کے مطابق عالمی نظام انتشار پر مبنی ہے‘ اور ریاستیں بنیادی طور پر بقا اور خوشحالی کے اصولوں پر عمل کرتی ہیں۔ ایسے نظام میں اخلاقی اصول‘ اگرچہ بالکل غائب نہیں‘ اکثر سٹرٹیجک مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ نظریاتی اتحادی لمحوں میں مخالف بن سکتے ہیں اور دشمن دوست بن جاتے ہیں جب حالات کا تقاضا ہو‘ حقیقت پسندی پر تنقید کرنے والے اسے اخلاقی دیوالیہ پن سے تعبیر کرتے ہیں‘ لیکن حامیوں کے نزدیک یہی وہ حقیقت پسندانہ عینک ہے جس سے عالمی معاملات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ جہاں مثالی سوچ ترغیب دیتی ہے‘ وہیں حقیقت پسندی اس وقت رہنمائی فراہم کرتی ہے جب داو¿ بلند ہوں اور آپشنز محدود ہوں۔ 
مصنف سابق سیکرٹری داخلہ و قبائلی امور حکومت خیبرپختونخوا اور ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل پولیس ہیں۔