بھارت کی آبی جارحیت اور ثالثی

بھارت نے حال ہی میں دو پہلوﺅں سے پاکستان کے خلاف جارحانہ رویئے میں اضافہ کرتے ہوئے دھمکی بھی دی ہے کہ وہ پاکستان میں ان اہداف پر بغیر کسی انتباہ کے حملہ کرے گا جن کے بارے میں اس کا خیال ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں مبینہ دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ طاس معاہدہ 1960 کو ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت پاکستان میں دریاﺅں کے بہاﺅ کا انتظام طے تھا۔ ان دونوں اقدامات کا بین الاقوامی قانون میں کوئی جواز نہیں اور ان اقدامات سے لامحالہ جلد یا بدیر دونوں جوہری ممالک کے درمیان دشمنی کی شدت میں اضافہ ہوگا۔ آزادی کا مطالبہ کرنے والے کشمیریوں کی مبینہ حمایت کی وجہ سے معصوم سیاحوں پر حملے کے جواب میں بھی بین الاقوامی سرحدوں کے پار مہلک میزائل داغنا پاگل پن ہے۔ اسی طرح سندھ طاس معاہدے سے یک طرفہ طور پر دستبردار ہونا بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔ پہلگام حملے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی مایوسی واضح تھی کیونکہ اس سے ان کی سیاست کو دھچکا لگا۔ مقبوضہ کشمیر میں شدید جبر اور یہاں تک کہ 2019 میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کرنا بھی جدوجہد آزادی کے جذبے کو کنٹرول کرنے یا اس پر قابو پانے میں ناکامی ہے‘ تاہم چار روزہ جھڑپ کے بعد سب سے زیادہ حیران کن بات مودی کا بزدلانہ رویہ تھا جس کے ساتھ بھارتی فوج کے اعلیٰ حکام نے ان سیاسی محرکات پر مبنی لیکن غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں پرعمل کیا۔ اگر ایٹمی ہتھیار استعمال کیے جاتے تو تاریخ سینئر فوجی بھارتی کمانڈروں کی کارکردگی کا اندازہ کیسے لگاسکتی؟ اس معاملے سے نمٹنے کے دیگر طریقے بھی تھے لیکن مودی کی جلدبازی کی وجہ سے خطرات اور کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ اب مستقبل میں اس طرح کے منظرنامے کا جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔ آج فوجیں کمان اور تیرسے نہیں بلکہ ہتھیاروں سے لیس ہیں جو ایک ہی حملے سے لاکھوں لوگوں کو تباہ کر سکتے ہیں۔ پاکستان سندھ طاس معاہدے کے تحت اپنے آبی حقوق سے دستبردار نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا مطلب بھوک اور موت ہوگا۔ ایسا کوئی راستہ نہیں ہے کہ بھارت قانونی طور پر یک طرفہ طور پر معاہدے کے مندرجات کو واپس لے یا تبدیل کر سکے کیونکہ اس کا مطلب جنگ ہوگا اور ایک تباہ کن منظر نامے کے تحت کرہ ارض کے دو ارب افراد متاثر ہوسکتے ہیں۔ بھارت کی پیاس بجھانے کے لئے تمام بین الاقوامی معاہدوں اور خود انسانیت کے مستقبل کو داﺅ پر نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ تاہم چند خدشات کو باہمی طور پر حل کیا جا سکتا ہے‘ جیسا کہ کشن گنگا ثالثی کا معاملہ حکومت 
پاکستان کو اب فوری طور پر ثالثی ٹربیونل سے رجوع کرنا چاہئے تاکہ دریاﺅں کے پانی کو روکنے سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹا جا سکے اور اس کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر میں درجہ حرارت کم کرنے میں بین الاقوامی دلچسپی بھی حاصل کی جا سکے۔ جو بات اکثر فراموش کر دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان نے دوہزارتیرہ میں کشن گنگا ثالثی ایوارڈ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں مقدمہ لڑنے کے پاکستان کے قانونی حق کو تسلیم کیا گیا دریائے نیلم کے قدرتی بہاﺅ کو جاری رکھنے کی اجازت دی گئی اور اس حوالے سے چند تکنیکی نکات کو بھی واضح کیا گیا۔ یہ درست ہے کہ بھارت کو کشن گنگا رن آف دی ریور منصوبے کی تکمیل کی اجازت دی گئی تھی لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت نے نیلم جہلم منصوبے پر تعمیراتی کام عجلت میں شروع کیا تھا جس سے اس کی بدنیتی واضح ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ کے اہم لمحات کو نظر انداز کرنے کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ پاکستان کے پانی سے متعلق حقوق‘ پانی کے تحفظ اور اضافی پانی ذخیرہ کرنے کی ترقی کے لئے فعال طور پر کام کرنے کا وقت آ گیا ہے اور اگر اس وقت مستقبل کی ضروریات کا ادراک نہ کیا گیا تو بھارت کی خواہش و کوشش کے مطابق پاکستان کے کثیر الجہتی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ (مضمون نگار سابق چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا‘ سندھ‘ آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان اور چیئرمین واپڈا رہے ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر شکیل درانی۔ ترجمہ ابوالحسن امام)