نئی خانہ جنگی سے پہلے۔۔۔۔

چند روز پہلے تاشقند میں منعقد ہونیوالی سینٹرل اینڈ ساؤتھ ایشیا کانفرنس اس لحاظ سے اہم تھی کہ اس میں امریکہ‘ یورپی یونین‘ مشرق وسطیٰ‘ چین اور روس کے مندوبین کے علاوہ ایسے ممالک کے سربراہوں اور وزرائے خارجہ نے بھی شرکت کی جنکی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں افغان جنگ کی تباہ کاریوں سے متاثر ہونیوالے ممالک میں پاکستان سر فہرست ہے لیکن اب امریکی افواج کی واپسی کے بعد ازبکستان‘ تاجکستان‘  اور ترکمانستان بھی خوفزدہ ہیں کہ انکے ہمسایہ ملک میں اگر ایک نئی خانہ جنگی شروع ہوجاتی ہے تو اسکے گہرے سیاسی اور معاشی اثرات ان پر بھی مرتب ہوں گے یہ کانفرنس اگر چہ کہ جنوبی اور وسطی ایشیا کے ممالک کے درمیان ہائی ویز اور ریلوے لائنیں بچھانے کے مقصد کیلئے بلائی گئی تھی مگر اس خواب کی تعبیر افغانستان میں امن قائم ہونے تک حاصل نہیں ہو سکتی اس اعتبار سے اس کانفرنس نے ان تمام ممالک کو ایک قیمتی موقع فراہم کیا تھا کہ وہ مل بیٹھ کر اس طوفان کا سد باب کر سکیں جو سب کے دروازوں پر دستک دے رہا ہے اس دو روزہ کانفرنس کے اختتام پر جو نتیجہ سامنے آیا وہ یہ تھا کہ جس ملک کو اس بیٹھک کی سب سے زیادہ ضرورت تھی اسی نے اسکے بخیے ادیڑھ کر رکھ دئے صدر اشرف غنی اور انکے نائب صدر امرللہ صالح نے اس کانفرنس کے دوران پاکستان کے خلاف جو طرز عمل اپنایا وہ اتنا زیادہ نا قابل فہم نہیں ہے یوں لگتا ہے کہ افغان قیادت اس اکٹھ کو سبوتاژ کرنیکا منصوبہ بنا کر اسمیں شرکت کیلئے آئی تھی صدر اشرف غنی نے بھری محفل میں جس طرح پاکستان پر الزامات لگائے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اس کانفرنس کے نتیجہ خیز ہونے سے کوئی دلچسپی نہ تھی اس ہائی پروفائل اجتماع میں انہوں نے عالمی میڈیا کے سامنے کہا کہ پاکستان سے دس ہزار جنگجو افغانستان بھیجے گئے ہیں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنی تقریر میں اس کا مؤثر جواب دیتے ہوئے افغانستان میں امن قائم کرنے کیلئے اپنے ملک کی خدمات تفصیل سے بیان کیں۔اگرچہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا مگر اس موقع پر اشرف غنی نے پاکستان دشمنی کا کارڈ کھیل کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ امن سے زیادہ انتقام میں دلچسپی رکھتے ہیں۔اس کانفرنس کے انعقاد کے دوران اشرف غنی کے نائب صدر مسلسل پاکستان پر طالبان کی مدد کرنے کا الزام لگاتے رہے امراللہ صالح نے سپین بولدک کے سرحدی قصبے پر طالبان کے قبضے کے بعد اپنی حکومت کی ایک بڑی پسپائی کا ملبہ پاکستان پر ڈالتیہوئے طالبان کی مدد کا الزام عائد کیا، اسلام آباد کی وزارت خارجہ نے اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہوے کہا کہ پاکستان نے اپنے علاقے میں سیکیورٹی فورسز اور آبادی کے تحفظ کیلئے ضروری اقدامات اٹھائے تھے سپین بولدک ایک شاہراہ کے ذریعے شمال میں قندھار سے ملا ہوا ہے اور جنوب میں ایک ہائی وے اسے پاکستان کے سرحدی قصبے چمن سے آگے کوئٹہ سے بھی ملاتا ہے اس سرحدی چوکی سے تین ارب روپے کی پاکستانی کرنسی برآمد ہوئی جسکا مقصد پاکستان کے خلاف تخریبی کاروائیاں کرنے والے دہشت گردوں کی معاونت کے علاوہ اور کچھ  نہیں ہو سکتا اسکے ساتھ اگر اسلام آباد سے اٹھارہ جولائی کو مبینہ طور پر ااغوا ہونیوالی فغانستان کے سفیر نجیب اللہ علی خیل کی بیٹی کے واقعے کو جوڑ کر دیکھا جائے تو یہ تمام واقعات ایک ہی لڑی میں پروئے ہوے نظر آتے ہیں یہ لڑکی اپنے گھر سے اکیلی نکلنے کے بعدایک ٹیکسی میں کھڈا مارکیٹ گئی جو کہ شاپنگ سینٹر نہیں بلکہ گاڑیوں کی مرمت کرنیوالی دکانوں کا مرکز ہے اسکے بعد ایک دوسری ٹیکسی میں وہ راولپنڈی میں گھومنے کے بعد دامن کوہ بھی گئی وہاں سے وہ ایک تیسری ٹیکسی میں اسلام آباد واپس آئی دنیا بھر میں نافذ ڈپلو میٹک پروٹوکول کے مطابق سفیر صاحب کی صاحب زادی کو سیکیورٹی کے بغیر اکیلے گھر سے نکلنا ہی نہیں چاہیے تھا اگر چہ کہ وزیر اعظم عمران خان نے افغان حکومت کو اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا یقین دلایا ہے اور اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت خانے کی سیکیورٹی میں بھی اضافہ بھی کر دیا گیاہے مگر اسکے باوجود افغان صدر نے اس واقعے کے ایک روز بعد اپنے سفارتی عملے کو واپس بلالیا ہے وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ وہ سیف سٹی کیمروں کی فوٹیج سے یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ افغان سفیر کی بیٹی اپنی مرضی سے گھومتی رہی اور یہ کسی بھی صورت اغوا کی واردات نہ تھی۔اس واقعے سے تین روز پہلے بدھ کے دن ضلع اپر کوہستان میں داسو ہائیڈر پاور پلانٹ کے قریب ایک مبینہ  حادثے میں نو چینی انجینئرز اور فرنٹیئر کور کے دو اہلکار ہلاک ہوئے۔ اس واقعے کی تحقیقات چینی اور پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیاں مل کر کر رہی ہیں۔ داسو ڈیم واقعے کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے تاشقند سے اپنے چینی ہم منصب Li  Keqiang کو بیجنگ میں  فون کرکے اس واقعے کی مکمل اور جلد از جلد تحقیقات میں ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا سولہ سے بیس جولائی کے درمیان ہونیوالے ان تمام واقعات میں انڈیا کے وزیر خارجہ سبرا منیم جے شنکر کے اس اعتراف کو بھی شامل کر لیجئے کہ پاکستان کو فیٹف کی لسٹ میں انڈیا نے شامل کرایا ہے اس بیان نے ایکطرف فیٹف کو ایک سیاسی ادارہ ثابت کر کے اسکی کریڈیبلٹی کو نقصان پہنچایا ہے تو دوسری طرف یہ بھی ثابت کیا ہے کہ پاکستان  کے خلاف کس طرح سے انڈیا اور مغربی ممالک  سازشوں میں مصروف ہیں۔ اتنے ممالک کی دشمنی کے باوجود اگر افغانستان میں پاکستان کے مؤقف کی فتح ہوئی ہے اور امریکہ کو وہاں سے واپس جانا پڑا ہے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں مگر گذشتہ چند دنوں کے واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ دشمن پوری طرح بوکھلایا ہوا ہے اور وہ اپنی ہزیمت کا بدلہ لینے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے یوں لگتا ہے کہ افغانستان میں تو خانہ جنگی شروع نہیں ہوئی مگر پاکستان کو دشمنوں نے نشانے کی زد پر لے لیا ہے یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنی کابینہ کے ارکان کو خارجہ پالیسی کے معاملات پر غیر ضروری بیانات دینے سے منع کریں کہا گیا ہے کہ اتنے نرم نہ بنو کہ تمہیں نچوڑ دیا جائے اور نہ اتنے سخت بنو کہ تمہیں توڑ دیا جائے اور ساتھ ہی اپنے ناقا بل اعتبار ہمسائے کو یہ سمجھانا چاہئے کہ بہتان طرازی اور الزام تراشی پر مبنی ریاستی پالیسیاں بیک فائر کر سکتی ہیں جس طرح انڈیا کو افغانستان سے بے نیل و مرام واپس جانا پڑا ہے اسی طرح اشرف غنی بھی طویل عرصے تک کابل میں قلعہ بند نہیں رہ سکتے افغانستان جنگ اور امن میں سے جو راستہ بھی منتخب کرے اشرف غنی کابل کے صدارتی محل میں امریکی اندازوں کے مطابق چھ مہینوں کے مہمان ہیں انکے پاس عزت سے رخصت ہونیکا وقت اب بھی باقی ہے مگر وہی بات کہ جنگل میں دو راستے نکلتے ہیں سارا فرق راستے کے انتخاب کا ہے۔