دھرتی کا ہار سنگھار

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
زندگی جنگ و جدل بھی ہے‘ جدوجہد جہاد بھی ہے اور عبادت و خدمت بھی‘ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو زندگی کے ان سب سنگین مراحل سے گزرنے کے باوجود اپنی فکری‘ نظری اور قلبی کائنات کو بچائے اور سجائے رکھتے ہیں اندر کی آنچ کو ہلکا ہونے دیتے ہیں نہ اس آنچ کو شعلہ بنا کر دو سروں کی دنیا بھسم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایسے لوگ اپنے گھروں کے چراغ بجھا کر دوسروں کے گھر فروزاں کرنے کاحوصلہ رکھتے ہیں ایسے لوگ منظر عام پر آکر اپنی تصویریں دیواروں اور کھمبوں پر لگانے کے شائق بھی نہیں ہوتے‘ہر نظام تحریک اور ادارے میں ایسے لوگ خال خال ہی سہی موجود ضرور ہوتے ہیں جو پس پردہ رہ کر بڑے بڑے کام کرتے رہتے ہیں‘ یہی لوگ دھرتی کا ہار سنگھار ہوتے ہیں‘ ایسے ہی ہمارے ایک دوست عثمان علی بہت پڑھے لکھے مہذب‘ مودب‘ شائستہ انسان ہیں عثمان علی کو میں اور وہ مجھے ایک مدت سے جانتے  تھے مگر کبھی ملے نہیں تھے وہ غائبانہ میرا مداح اور میں اس کا‘ ایک دن پتہ چلاکہ عثمان علی یونیورسٹی کے ایک بڑے انتظامی عہدے پر فائز ہیں وہ مجھے ملنے آرہے تھے کہ میں چلا گیا دیکھتے ہی میری نظروں میں کھب گئے بانکے سجیلے‘ خوش گفتارو خوش نہاد‘ بہت اعلیٰ قیمتی وضع دار لباس میں ملبوس اٹھ کر گلے ملے تو ایسا لگا کہ نصف صدی سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں‘ مصافحے کے دوران اندر کی حرارت برقی لہروں کی طرح قلب وذہن میں سرایت کرگئی جوان رعنا‘ ہنس مکھ‘ ملنسار عثمان کو دیکھ کر میں نے سوچا یہ تو عثمان نہیں ہو سکتا اس کی شہرت تو کچھ اور سنی تھی جنگجو‘ فدا کار اور جارح و سرفروش مگریہ تو گھی کا گھڑا ہے سر کے بغیر اس کا کوئی جملہ مکمل نہیں ہوتا یہ وہ عثمان ہے جو مارشل لاء کی قوتوں سے ٹکرا گیا تھا جس نے ظلم و جبر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا تھا جس نے نوکریوں سے برطرفی سے لے کر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں جس کی جرات و بہادری کی قسمیں کھائی جاتی تھیں میں نے اس کے متعلق اس قسم کی باتیں سنی تھیں‘ میں اپنا ایک سیاسی نکتہ رکھتا ہوں مگر سیاسی لوگوں سے ملنے سے گریز کرتا ہوں‘خاص طورپر تنظیم باز لیڈروں سے مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا مجھے اتنا عرصہ عثمان سے نہ مل سکنے پر افسوس سا ہو رہا تھا پاکستان کی عملی سیاست کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں عثمان کے ارتقائی مراحل  اور سیاسی سرگرمیوں سے اخبارات کے ذریعے اور سینہ بہ سینہ حکایات کے حوالے سے واقف ہو رہا تھا عثمان جب مارشل لاء کی چٹانوں سے ٹکرایا اس وقت وہ ایک تازہ کلی کی طرح نوخیز جوان تھا اس کے کھیلنے کھانے کے دن تھے متوسط گھرانے کا چشم و چراغ تھا پڑھنے لکھنے کا شوقین‘ ذہن و فراست کی صلاحیتیں رب نے بخشی تھیں‘بی ایس سی کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا‘سائنس کے بعد آرٹس کی طرف آیا اور ایم اے کے امتحان میں درجہ اول کی کامیابی حاصل کی‘ایم اے کے بعد قانون کی تعلیم کی طرف پلٹنے اور ایل ایل بی میں نہ صرف پہلی پوزیشن حاصل کی بلکہ اس کے ساتھ صدارتی ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ میں اس کی جرات‘ ذہانت‘ محنت اور خلوص پر رشک کرتا ہوں اور اس بات پر فخّر کرتا ہوں کہ وہ مجھے چاہتا ہے اور میں اسے چاہتا ہوں حالانکہ ہم بہت کم ملتے ہیں۔