آبی بحران: پائیدار انتظام

پاکستان کو اِس وقت پانی کے شدید بحران یعنی ملک کے کئی حصوں میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے‘ اطلاعات کے مطابق اِس آبی بحران کی وجہ سے زراعت‘ صنعتیں اور گھریلو استعمال سمیت معیشت کے تقریباً تمام شعبے متاثر ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سال دوہزاراکیس کے بعد سے بعد پاکستان میں پانی کی کمی میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے اور پاکستان میں فی کس دستیاب و میسر پانی عالمی معیار (اوسط) سے کم ہے‘ اِس صورتحال کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ پانی کی قلت سے پیدا ہونے والی صورتحال ہر دن مزید خراب ہو رہی ہے؛ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کی آبادی سال 2050ء تک چالیس کروڑ سے تجاوز کر جائے گی‘ جبکہ اِس کے پاس پانی کے وسائل اور ذخائر میں اضافہ ناگزیر ضرورت ہے۔ اِس منظرنامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ’پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر)‘ کی جانب سے جاری کردہ تنبیہ قومی فیصلہ سازوں کی خاص توجہ چاہتی ہے جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ ملک اپنی بڑھتی ہوئی آبادی اور پانی کی بڑھتی ہوئی طلب سے نمٹنے کے لئے فوری اور خاطرخواہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے مطابق پینے کے صاف پانی اور صفائی ستھرائی تک رسائی کے معاملے میں پاکستان 80 ممالک میں اکیاسویں نمبر پر ہے‘ یہ درجہ بندی ملک میں پانی کی فراہمی و صفائی ستھرائی کی سہولیات کی خراب حالت کو اُجاگر کرتی ہے‘ پینے کے صاف پانی تک رسائی کی کمی صحت عامہ کا ’سنگین مسئلہ‘ ہے جو پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے پھیلاؤ کا باعث بنتا ہے اور جس کے نتیجے میں ہر سال ہزاروں اموات ہو رہی ہیں‘ خاص طور پر دیہی علاقوں میں کہ جہاں زرعی معیشت و معاشرت ہے وہاں پانی کی قلت سے پیدا ہونے والی صورتحال انتہائی سنگین ہے اور عوام کی اکثریت ’آلودہ پانی‘ پینے پر مجبور ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے پانی کی قلت کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہو رہا ہے‘ جس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث درجہئ حرارت میں اضافہ‘ غیرمتوقع موسم‘ سیلاب اور خشک سالی ہیں؛ پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق ملک کو  1990ء کی دہائی کے بعد سے ہر سال  پہلے سے زیادہ شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اب تک شدید ترین خشک سالی 2021ء میں دیکھی گئی تھی اور ’موسمیاتی تبدیلی‘ پاکستان میں پانی کے بحران کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے؛کرہئ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت‘ بدلتے موسمی مزاج (پیٹرن) اور برفانی تودوں (گلیشیئرز) کے تیزی سے پگھلنے کی وجہ سے ملک میں پانی کی فراہمی متاثر ہو رہی ہے‘  پانی کے بہاؤ میں اِس غیرمعمولی کمی سے زراعت‘ پن بجلی کی پیداوار اور دیگر شعبے متاثر ہیں جو پانی پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں‘ اِس کے علاؤہ پاکستان عالمی سطح پر آب و ہوا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا آٹھواں بڑا ملک ہے اور اِس کے سر پر موسمیاتی تبدیلیوں کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سیلاب اور خشک سالی جیسے شدید موسمی واقعات زیادہ کثرت سے رونما ہوتے ہیں‘ جن سے متاثرہ افراد کی امداد و بحالی کے لئے اربوں روپے درکار ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جہاں ہر سال اربوں روپے کے نقصانات ملک کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا رہے ہوں اور یہ پانی کی فراہمی میں بھی خلل ڈال رہے ہوں وہاں اگر پانی کی قلت برقرار رہے تو ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب پانی کی قلت قومی ترقی کے نظام کو مفلوج کر کے رکھ دے گی۔توجہ طلب ہے کہ پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اِس بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے پانی کے ذخائر میں اضافہ نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے ملک کے کئی حصوں میں پانی کی مانگ زیادہ اور دستیاب وسائل کم ہیں بالخصوص شہری علاقوں میں ’آبی وسائل‘ پر اضافی بوجھ دیکھا جا رہا ہے جہاں گھریلو مقاصد یعنی کھانے پینے‘ صفائی اور کپڑے دھونے کے لئے درکار پانی کی طلب بڑھ رہی ہے۔ پی سی آر ڈبلیو آر کے مطابق پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی جو سال 1951ء میں 5260 مکعب میٹر فی کس تھی کم ہو کر سال 2021ء میں 1071ء مکعب میٹر فی کس رہ گئی اور اِس میں بھی ہر سال کمی ہو رہی ہے۔ صورتحال کا یہ پہلو بھی ذہن نشین رہے کہ 1951ء میں پاکستان کی آبادی 3 کروڑ 40 لاکھ (34 ملین) تھی اور 2023ء میں پاکستان کی آبادی 23 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے یعنی پانی کی ضرورت تو آبادی کے ساتھ بڑھ رہی ہے لیکن حسب تناسب پانی کے وسائل میں اضافہ نہیں ہو رہا جس کے لئے ایک پائیدار ترقیاتی انتظام چاہئے اور اِسی ترقیاتی انتظام کی جانب ماہرین و تحقیقی ادارے مسلسل توجہ دلا رہے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے خوراک کا بندوبست کرنے کے لئے زراعت پر انحصار کیا جاتا ہے جبکہ زرعی ضروریات (آبپاشی) کے لئے پانی کی طلب میں اضافہ اور دستیابی میں کمی ہو رہی ہے اور اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں غیرسائنسی اصولوں پر زراعت کی جاتی ہے جبکہ قرب و جوار کے ممالک میں کم پانی اور کم رقبے کے استعمال سے زیادہ زرعی پیداوار حاصل کی جا رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں دستیاب پانی کا 90فیصد حصہ زراعت کے مختص ہے اور پانی کی بالعموم کمی کی وجہ سے آبپاشی کے نظام پر دباؤ میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے! ایک ایسے وقت میں جبکہ زرعی پیداواری ضروریات مہنگی ہیں اُور زراعت منافع بخش بھی نہیں رہی تو اگر کھیتی باڑی کے لئے پانی بھی دستیاب نہیں ہوگا کہ کاشتکاری عملاً کس طرح جاری رکھی جا سکے گی؟ وقت ہے کہ زرعی و غیرزرعی شعبوں کیلئے دستیاب پانی کی مقدار بڑھائی جائے اور پانی کے دانشمندانہ مؤثر استعمال کے لئے ’قومی حکمت عملی‘ وضع کی جائے تاکہ درپیش چیلنجوں کا خوش اسلوبی سے مقابلہ کیا جا سکے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ صنعتی شعبہ جو پاکستان میں معاشی ترقی کا اہم محرک ہے اور جیسے جیسے یہ شعبہ ترقی کر رہا ہے ویسے ویسے پانی کی طلب بھی بڑھ رہی ہے جبکہ ملک کے محدود آبی وسائل ہیں۔ اگر بیک وقت کئی شعبے اپنی ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کرنے کی اصلاح نہیں کرتے تو اِس سے پانی کا بحران صوبوں اور صوبوں کے بعد عوام کے درمیان تنازعات پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔