بھرتی کے طریقہ کار میں اصلاحات ناگزیر

شنید ہے کہ سندھ حکومت بھی پنجاب حکومت کی طرح اپنے کچے کے علاقے میں رینجرز اور افواج پاکستان کو ڈاکوؤں کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے‘ یہ درست ہے کہ سول انتظامیہ اپنے دائرہ اختیار میں امن عامہ کو یقینی بنانے کے واسطے پولیس کی معاونت کے لئے پیرا ملٹری فورسز یا فوج کو طلب کر سکتی ہے‘ تاہم دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اب تو جیسے سول انتظامیہ نے یہ معمول بنا لیا ہو کہ وہ بات بات پر پولیس کی امداد کے واسطے پیرا ملٹری فورسز پر تکیہ کرنے لگی ہے اس روش سے تو صاف یہ ظاہرہوتا ہے کہ صوبائی حکومتیں پولیس کی بھرتی میں میرٹ کے بجاے سیاسی بنیاد کو اہمیت دے رہی ہیں جس کی وجہ سے پولیس کے نچلے کیڈرز میں با صلاحیت افراد بھرتی نہیں ہو رہے اور پھر نہ ان کی مناسب تربیت پر توجہ دی جاتی ہے اور نہ ہی ان کو جدید اسلحہ سے لیس کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ جرائم پیشہ افراد کا قلع قمع کرنے میں ناکام ثابت ہورہی ہے اس صورت حال کے پیش نظر یہ ضروری ہوگیا ہے کہ پولیس فورس کے نچلے کیڈر میں بھرتی کے لئے بھی وہی طریقہ کار اپنایا جائے کہ جو افواج پاکستان میں نافذ ہے اور اس کو جدید ترین اسلحہ سے بھی لیس کیا جائے ایسا کرنے سے صوبائی حکومتوں کو اپنے اپنے علاقوں میں پیرا ملٹری فورسز یا افواج طلب کرنے کی ضرورت نہیں پیش آئے گی‘ہمیں اس حقیقت کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ فرانٹیئر کور یا فرانٹیئر کانسٹیبلری کو بار بار پولیس کی معاونت کے واسطے طلب کرنے سے ان کے اپنے بنیادی فرائض منصبی پر بھی منفی اثر پڑتا ہے فرانٹیئر کور کی بنیادی ڈیوٹی سابقہ فاٹا کے اندر اور پاک افغان بارڈر پر امن عامہ کے قیام کو یقینی بنانا ہوتا ہے‘ جب کہ فرانٹیئر کانسٹیبلری کا قیام اس لئے عمل میں لایا گیا تھا کہ وہ خیبر پختونخوا کی سابقہ فاٹا کے ساتھ سرحد پر کڑی نظر رکھے تاکہ بندوبستی علاقوں یا بالفاظ دیگر ریونیو ڈسٹرکٹس کا امن عامہ قبائلی علاقے سے آئے ہوئے کسی دہشت گرد کے ہاتھوں خراب نہ ہونے پائے‘جب فرانٹیئر کانسٹیبلری اور فرانٹیئر کور کے دستوں کو صوبائی حکومتیں بلاتی ہیں تو ان کے اپنے بنیادی کام میں حرج پڑتا ہے ان چند ابتدائی کلمات کے بعد درج ذیل اہم داخلی اور بیرونی امور پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا ضروریہوگا‘غیر قانونی رہائشی افغان باشندوں کاڈیٹا اکٹھاکرنے کا جو فیصلہ حکومت نے اب کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اب تک اس ضمن میں سخت تساہل سے کام لیا جاتا رہا ہے حالانکہ اسی کالم کے توسط سے ہم ایک عرصہ دراز سے ارباب اختیار سے یہ گزارش کرتے آ ئے ہیں کہ وہ افغانستان کے متعلقہ حکام سے فوری گفت و شنید کے ذریعے ایک ایسا امیگریشن کا میکنزم ترتیب دیں کہ کوئی افغان وطن عزیز میں بغیر ویزا کے داخل نہ ہوسکے اور پھر جب اس کے ویزے کی معیاد ختم ہوتو وزارت داخلہ کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ملک واپس جا چکا ہے اور دوسری بات یہ کہ اسے یہ اجازت نہ ہوکہ وہ پاکستان میں داخل ہونے کے بعد اس ملک کے ہر شہر میں بلا روک ٹوک گھوم پھر سکے اس کے ویزا میں ان شہروں کے نام درج ہوں کہ جہاں اسے جانے کی اجازت ہو جب تک اس ضمن میں اس سختی سے کام نہیں لیا جائے گا کہ جو انگلستان میں داخل ہونے والے بدیسیوں سے کی جاتی ہے‘دہشت گرد وطن عزیز میں آ سانی سے گھستے رہیں گے اور یہ ملک دہشت گردی کا شکار ہوتا رہے گا۔ ترقی یافتہ ممالک کی ایک بڑی نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی شہر میں بھی آپ چلے جائیں ہر ایک یا دو فرلانگ کے بعد آپ کو ایک لائبریری نظر آ ئیگی جو ہر مضمون اور موضوع پر لکھی گئی کتابوں سے لیس ہوگی اس کے اندر آرام دہ فرنیچر پر بیٹھ کر لکھنے پڑھنے کیلئے تمام ضروری لوازمات موجود ہونگے‘ لائبریری کے احاطے میں ہی خوردونوش کی مناسب سہولت میسر ہوگی یہ لائبریریاں ہفتے اور اتوار کو بھی کھلی رہتی ہیں البتہ ان دنوں میں  وہاں سے کوئی کتاب اپنے نام ایشو نہیں کروا سکتے پر لائبریری کے اندر بیٹھ کر اس کے اوقات کار کے دوران ان کا مطالعہ ضرور کر سکتے ہیں۔